پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! ایک مسلمان کے لئے سب سے قیمتی متاع اس کا ایمان ہے اور ایمان کا مطلب یہ ہے کہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جن کا تعلق ضروریاتِ دین سے ہو۔
(البحرالرائق ،کتاب السیر،باب احکام المرتدین، ج۵، ص۲۰۲)
اور ضروریاتِ دین سے مراد دین کے وہ مسائل ہیں جنہیں ہر خاص وعام جانتا ہو مثلاً اللہ عزوجل کا ایک ہونا ، انبیاء کی نبوت ، نماز ، روزہ ،حج ، جنت و دوزخ ، قیامت میں اٹھایا جانا ، حساب وکتاب ہونا وغیرھا۔
(بہارشریعت،حصہ۱،ص۴۸)
یہ بھی یاد رکھئے کہ کسی ایک بھی ضرورتِ دینی کا انکار کرنا کفر ہوتا ہے اگرچہ بقیہ ضروریاتِ دینیہ کا اقرار کیا جائے ۔
(البحر الرائق ،ج۵،ص۲۰۲)
چنانچہ بلا اکراہِ شرعی ،ہوش و حواس میں بغیر خطاء کے زبان سے کسی ضرورتِ دینی کا انکار کرنا یا ایسے الفاظ بولنا جس سے کسی ضرورتِ دینی کا انکار نکلتا ہو کفر ہے ۔مثلاً یہ کہنا کہ ”اللہ ہوتا تو میری دعا ضرور سنتا ۔”یا کسی نقصان پر یہ کہنا ”اللہ نے یہ بڑا ظلم کیا”کفر ہے ۔ ۱؎
لیکن یاد رہے کہ اگرآپ کے سامنے کوئی شخص (معاذ اللہ عزوجل ) ایسا کلمہ کہہ ڈالے جسے علمائے کرام نے کفرقرار دیا ہوتو اُس پر فوری طور پر ”کفر کا فتویٰ”لگانے سے بھی پرہیز کریں کہ اسی میں عافیت ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو اور وہ کلمہ کفر نہ ہو یا پھر وہ کلمہ توکفر ہو لیکن اس کے کہنے والے کو کافر نہیں کہا جاتا، اس لئے راہِ سلامت یہی ہے کہ ایسا شخص احتیاطاً تجدید ایمان کرنے کے بعد فوراً کسی مفتی صاحب سے رابطہ کرے۔ (اس بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ کتاب”ایمان کی حفاظت” کا مطالعہ فرمائیں )
اكراہ شرعی
(١)اكراہ شرعی سے مراد یہ ہے كہ كسی نے كلمہ كفر كہنے پر اس طرح مجبور كیا كہ اگر تم نے یہ كلمہ نہ كہاتو میں تمہیں مار ڈالوں گا یا جسم كافلاں حصہ كاٹ ڈالوں گا اور یہ شخص جانتا ہے كہ یہ اپنی دھمكی پر عمل كرگزرے گا تو ایسی حالت میں اسے رخصت دی گئی ہے جبكہ دل میں اطمینان ایمان موجود ہو۔
,ہاں اگر توریہ كرسكتا ہے تو توریہ كرےمثلاً كسی كو معاذاللہ عزوجل نبی كریم ﷺ كو بُرا كہنے پر مجبور كیا گیا تو وہ اپنے دل میں كسی دوسرے محمد نامی شخص كا خیال لائے اور اسے بُرا كہ لے,نبی پاك ﷺ كا تصور ہرگز نہ كرے, اور اگر توریہ كرنا جانتا تھااور اس پر قادر بھی تھا لیكن نہ كیا تو اس پر حكمِ كفر ہے.
(ماخوذ از شرح فقہ اكبر ص ٢٧٥,بہارِشریعت ,حصہ ١٥, مسئلہ نمبر ١٦,ص ٤٦٦)
پیارے اسلامی بھائیو! اگر کوئی شخص کلمہ کفر بکنے کے سبب کافر ہوجائے تو اس کا ایک نقصان تویہ ہوگا کہ اس کی پچھلی تمام نیکیاں برباد ہوجائیں گی جو توبہ کے بعد بھی واپس نہیں ملیں گی جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :
ترجمہ کنزالایمان :اورجو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا۔”
(پ۶،المائدۃ:۵ )
اور اگر کسی بدنصیب کو توبہ کی توفیق نہ ملی اور حالتِ کفر میں ہی اس کا انتقال ہوگیا تو اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے :
ترجمہ کنزالایمان :اور تم میں جوکوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہوکر مرے تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ۔
(پ۲،البقرۃ:۲۱۷)
جہنم کا سب سے ہلکا عذاب
اور جہنم کا ہلکے سے ہلکا عذاب بھی برداشت کرنے کی سکت انسان کے ناتواں بدن میں یقینا نہیں ہے کیونکہ اس کاہلکاترین عذاب جس شخص کو ہوگا اسے آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح کھولنے لگ جائے گا جیسا کہ حضرتِ سیدنا ابن عباس رضي الله عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلي الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ”دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہو گا اسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔”
( صحیح البخاری ،باب صفۃ الجنۃ والنار، رقم الحدیث ۶۵۶۱، ص۱۱۶۵ )
لہذا ! ہمیں چاہے کہ پہلی فرصت میں کلماتِ کفریہ کے بارے میں معلومات حاصل کریں پھر اگر سابقہ زندگی میں ہم سے کوئی کلمۂ کفر صادر ہوگیا ہو تو فوراً توبہ کرکے تجدید ِ ایمان کریں اورآئندہ کے لئے اپنی زبان کو ایسے کلمات کی ادائیگی سے بچائیں ۔
اگر کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے تو کیا کوئی دوسرا شخص اس کو کافر کہہ سکتا ہے ؟
اسلام کی تعلیم اس کے بارے میں کیا ہے؟
جواب کا انتظار رہے گا!
اس سوال کا جواب آپ اس تحریرمیں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ”کسی مسلمان کو کافِر کہنا کیسا؟“