بلاحاجت کسی بھی مسلمان کو سوال کرنے (یعنی بھیک مانگنے) کی شریعت کی جانب سے اجازت نہیں ہے۔بھیک کی مذمت میں کئی احادیث مروی ہیں چنانچہ
احادیث مبارکہ
- حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :
” آدمی ہمیشہ لوگوں سے بھیک مانگتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہ ہو گی ،نہایت بے آبرو ہو کر آئے گا۔“ (بخاری ، کتاب الزکوۃ،رقم ۱۴۷۴،ج۱،ص۴۹۹) - حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ شفیع محشر ﷺ نے فرمایا :” تم میں سے جو شخص اپنی رسی لے کر اور لکڑیوں کا ایک گٹھا پیٹھ پر لاد کر لائے اور ان کو بیچے اور اللہ تعالیٰ بھیک مانگنے کی ذلت سے اس کے چہرے کو بچائے تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ لوگوں سے بھیک مانگے اور وہ اس کو دیں یا نہ دیں۔“ (بخاری، کتاب الزکوۃ،رقم۱۴۷۱،ج۱،ص۴۹۷ )
- جو شخص لوگوں سے سوال کرے، حالانکہ نہ اسے فاقہ پہنچا، نہ اتنے بال بچے ہیں جن کی طاقت نہیں رکھتا تو قِیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اُس کے منہ پر گوشت نہ ہو گا۔“ (شعب الایمان ج۳ ص ۲۷۴ حدیث ۳۵۲۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
جہنم کا گرم پتھر
- ” جو شخص بغیر حاجت سوال کرتا ہے، گویا وہ انگارا کھاتا ہے۔“ (المعجم الکبیر، ج۴ ص۱۵ حدیث ۳۵۰۶ دار احیاء التراث العربی بیروت)
- ” جو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے، وہ انگارے کا سوال کرتا ہے تو چاہے زیادہ مانگے یا کم کا سوال کرے۔“ (صحیح مسلم ص ۵۱۸، حدیث ۱۰۴۱ دار ابن حزم بیروت)
- جو شخص لوگوں سے سوال کرے، اس لیے کہ اپنے مال کو بڑھائے تو وہ جہنم کا گرم پتھر ہے، اب اسے اختیار ہے، چاہے تھوڑا مانگے یا زِیادہ طلب کرے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۵ ص ۱۶۶ حدیث ۳۳۸۲دارالکتب العلمیۃبیروت)
بھیک اور خراش
- حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :” بھیک مانگنا ایک قسم کی خراش ہے کہ آدمی بھیک مانگ کر اپنے منہ کو نوچتا ہے تو جو چاہے اپنے منہ پر خراش کو نمایاں کرے اور جو چاہے اس سے اپنا چہرہ محفوظ رکھے۔ ”ہاں اگر آدمی صاحب سلطنت سے اپنا حق مانگے یا ایسے امر میں سوال کرے کہ اس سے چارہ کار نہ ہو تو جائز ہے۔“
(سنن ابی داؤد ، کتاب الزکوٰۃ ، باب ماتجوز فیہ المسألۃ،رقم الحدیث ۱۶۳۹، ج۲،ص۱۶۸) - حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سرورِ عالم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے بھیک مانگتا ہے وہ گویا انگارہ مانگتا ہے تو اس کو اختیار ہے کہ بہت مانگے یا کم مانگے۔ (مسلم،کتاب الزکوۃ،رقم۱۰۴۱،ص۵۱۸)
- حضرت سیدنا کبشہ انماری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ” میں تین باتوں میں قسم اٹھاتا ہوں اور تمہیں ایک کام کی بات بتاتا ہوں اسے یاد کرلو:
(۱)صدقہ بندے کے مال میں کمی نہیں کرتا
(۲)جس بندے پر ظلم کیا جائے اوروہ اس پر صبر کرے اللہ عزوجل اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا
(۳)جس بندے نے سوال کا دروازہ کھولا اللہ عزوجل اس پر فقرکا دروازہ کھول دے گا۔“
(ترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء مث الدنیا اربعۃ نفر، رقم ۲۳۳۲، ج۴، ص ۱۴۵)
چہرے پر زخم جہنم کا پتھر
- حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا: ”امیر اور طاقتور کیلئے صدقہ حلال نہیں ۔ صدقہ صرف انتہائی غریب ، ادائیگی قرض سے ناتواں اوراس شخص کیلئے ہے جس پر دیت یا قصاص لازم ہوجائے اورجسں نے اس لیے لوگوں سے سوال کیا تاکہ مال میں کثرت ہوتو ایسا سوال قیامت کے دن اس کے چہرے پر زخم اورجہنم کا پتھر ہوگا جسے یہ کھائے گا تو جو چاہے اس میں کمی کرے اورجو چاہے زیادتی کرے۔“ اور حضور ﷺ نے صدیق اکبر ، ابو ذر غفاری اور ثوبان رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”تمہار کوڑا بھی گر جائے تو کبھی کسی سے سوال مت کرنا“۔
(سنن الترمذی ، کتاب الزکوۃ ، باب ماجاء من لاتحل لہ الصدقۃ ، رقم الحدیث ۶۵۳،ج۲،ص۱۴۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حوالے سے بھی اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ