Jannat ka Bayan

جنت کا بیان

اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کے سوا دو اور عظیم الشان دار پیدا کیے ہیں. ایک دار النعیم اس کا نام جنت ہے. ایک دار العذاب جس کو دوزخ کہتے ہیں.
جنّت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایماندار بندوں کیلئے انواع و اقسام کی ایسی نعمتیں جمع فرمائی ہیں. جن تک آدمی کا وہم و خیال نہیں پہنچتا ،نہ ایسی نعمتیں کسی آنکھ نے دیکھیں ،نہ کسی کان نے سنیں، نہ کسی دل میں ان کا خطرہ ہوا۔ ان کا وصف پوری طرح بیان میں نہیں آسکتا۔
اللہ تعالیٰ عطا فرمائے تو وہیں ان کی قدر معلوم ہوگی۔

جنت کی وسعت

جنت کی وسعت کا یہ بیان ہے. کہ اس میں سو درجے ہیں. ہر درجے سے دوسرے درجہ تک اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان۔اگر تمام جہاں ایک درجہ میں جمع ہو تو ایک در جہ سب کیلئے کفایت کرے۔ دروازے اتنے وسیع کہ ایک بازو سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستّر برس کی راہ ہے۔

جنّت میں صاف، شفاف، چمکدار سفید موتی کے بڑے بڑے خیمے نصب ہیں. ان میں رنگا رنگ، عجیب و غریب، نفیس فرش ہیں. ان پر یاقوتِ سُرخ کے منبر ہیں۔
شہد و شراب کی نہریں جاری ہیں. ان کے کناروں پر مرصع تخت بچھے ہیں ۔پاکیزہ صورت و لباس والے غلمان و خدام کے انبوہ ہیں. جو ہر وقت خدمت کیلئے تیار ہیں۔

جنت کی حوریں

نیک خو، خو برو حسین و جمیل حوریں جن کے حُسن کی چمک دنیا میں ظاہرہو تو اس کے مقابل آفتاب کا نور پھیکا پڑجائے۔ ان نازنینوں کے بد ن غایت و خوبی سے ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا وہ یاقو ت و مرجان کے بنے ہوئے ہیں۔ جب وہ ناز کے ساتھ خراماں ہوتی ہیں تو ہزارہا نور پیکرخدام ان کے آنچل اٹھائے چلتے ہیں۔
انکے ریشمی لباس کی چمک دمک نگاہوں کو جھپکاتی اور دیکھنے والوں کو متحیر بناتی ہے ۔ مروارید و مرجان کے مرصع تاج ان کے زیب سر ہیں۔
ان کا رنگ ڈھنگ ان کے نازوادا ان کے جواہرات کو شرما دینے والے صاف چمکدار اور عطر بیز بدن اہل جنت کیلئے کیسے فرحت انگیز ہیں. جن سے پہلے کسی انس و جن نے ان حوروں کو چھوا تک نہیں۔
پھر یہ حُسن دلکش دنیا کے حُسن کی طرح خطرہ میں نہیں کہ جوانی کا رنگ روپ بڑھاپے میں رخصت ہو جائے. وہاں بڑھاپا ہے نہ اور کوئی زوال و نقصان ۔
جنت کے چمنستان کے درمیان یاقوت کے قُصور و ایوان بنائے گئے ہیں. ان میں یہ حوریں جلوہ گر ہیں۔ موتی کی طرح چمکتے خادم ان کے اور جنتیوں کے پاس بہشتی نعمتوں کے جام اور ساغر لیے دورے کر رہے ہیں۔

پروردگار کریم کی طرف سے تحفے

پروردگار کریم کی طرف سے دم بہ دم انواع و اقسام کے تحفے اور ہدیئے پہنچتے ہیں۔ دائمی زندگی، عیش مدام عطا کیا گیا۔ ہر خواہش بےدرنگ پوری ہوتی ہے۔ دل میں جس چیز کا خیال آیا وہ فوراً حاضر ۔کسی قسم کا خوف و غم نہیں۔ ہر ساعت ہر آن نعمتوں میں ہیں۔
جنتی نفیس و لذیذغذائیں، لطیف میوے کھاتے ہیں ۔ بہشتی نہروں سے دودھ شراب شہد وغیرہ پیتے ہیں۔ ان نہروں کی زمین چاندی کی، سنگریزے جواہرات کے، مٹی مشک ناب کی، سبزہ زعفران کا ہے۔ ان نہروں سے نورانی پیالے بھر کر وہ جام پیش کرتے ہیں. جن سے آفتاب شرمائے۔

منادی

ایک منادی اہل جنت کو ندا کریگا. اے بہشت والو ! تمہارے لئے صحت ہے کبھی بیمار نہ ہوگے۔ تمہارے لئے حیات ہے کبھی نہ مرو گے۔ تمہارے لئے جوانی ہے بوڑھے نہ ہوگے۔ تمہارے لئے نعمتیں ہیں کبھی محتاج نہ ہوگے۔
تمام نعمتوں سے بڑھ کر سب سے پیاری دولت حضرت ربّ العزت جل جلالہ کا دیدار ہے. جس سے اہل جنت کی آنکھیں بہرہ یاب ہوتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی میسّر فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔

5/5 - (1 vote)

آفتاب کے مغرب سے طلوع کرنے اور دروازہ توبہ کے بند ہونے کی کیفیت بیان فرمائیے۔

روزے کے بارے میں لوگوں میں پائی جانے والی گیارہ وہ غلط باتیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

شب معراج کی فضیلت اور نوافل

معجزات سیرت انبیاء علیہم السلام کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقانیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون الٰہی ہے اس نے جب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم...

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)