یوم التَّروِیہ ذی الحجہ کی (8) آٹھویں تاریخ کا نام ہے۔ حجاج کرام 8 ذی الحج کو منیٰ میں ’یوم ترویہ‘ کے مناسک ادا کرتے ہیں۔
یوم الترویہ: نام کی وجوہات
یوم الترویہ نام رکھنے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
1. غور و فکر کا دن:
ترویہ کے لغت میں ایک معنی غور و فکر کرنے کے آتے ہیں۔ آٹھ ذی الحجہ کو ’’یوم الترویہ‘‘ کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب خواب میں ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اپنے فرزند اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کریں، جس کی صورت یہ ہوئی کہ آٹھ ذی الحجہ کی شب میں انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے بیٹے اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو صبح کو بیدار ہونے کے بعد وہ سوچ میں ہوگئے (کہ کیا یہ حکم خداوندی ہے؟) صبح سے شام تک اسی سوچ میں رہے کہ یہ خواب اللہ کی جانب سے ہے یا شیطان کی طرف سے ہے۔ اسی لیے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یوم الترویہ (سوچ کا دن) کہا جاتا ہے۔
2. سیرابی کا دن:
دوسرا معنی سیرابی کا آتا ہے کہ قدیم زمانے میں جب حجاج آٹھ ذی الحجہ کو منیٰ جاتے تھے تو وہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوتی تھی، چنانچہ منیٰ روانگی سے قبل مکہ سے زمزم کا پانی بھر لیتے تھے اور پھر منیٰ جاتے تھے۔ چنانچہ اس دن کا نام ’’یوم الترویہ‘‘ (پانی بھرنے کا دن) پڑ گیا۔