صدقۂ فطر ہر مسلمان آزاد مالکِ نصاب پر جس کا نصاب حاجت اصلیہ سے زائد ہو اور قرض سے فارغ ہو ایسے پر واجب ہے۔ اس میں عاقل بالغ اور مال کے لیے زکات کی طرح مال نامی ہونا کی شرط نہیں ہے۔
صدقۂ فطر شخص پر واجب ہے مال پر نہیں ہے۔ عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے۔ عمر بھر اس کی ادائیگی کا وقت ہے۔ یعنی اگر کبھی ادا نہ بھی کیا ہو تو بھی ادا کرنا لازم ہے اب ادا کرے گا تو بھی ادا ہو جائے گا۔ ادا نہ کرنے سے ساقط نہ ہو گا، نہ اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے اگر چہ سنت نماز عید سے پہلے ادا کر دینا ہے۔
نابالغ یا مجنون اگر مالکِ نصاب ہیں تو ان پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے، اُن کا ولی اُن کے مال سے ادا کرے گا۔ مرد مالکِ نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچہ کی طرف سے واجب ہے جب بچہ خود مالکِ نصاب نہ ہو۔
ہاں اگر نابالغ بچہ خود مالک نصاب ہو تو اس کا صدقہ اسی کے مال سے ادا کیا جائے اور مجنون اولاد اگرچہ بالغ ہو جبکہ غنی نہ ہو تو اُس کا صدقہ اُس کے باپ پر واجب ہے اور غنی ہو تو خود اس کے مال سے ادا کیا جائے۔
دادا پر پوتوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا
باپ نہ ہو تو دادا باپ کی جگہ ہے یعنی اپنے فقیر و یتیم پوتے پوتی کی طرف سے اس پر صدقہ دینا واجب ہے۔ ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ دینا واجب نہیں۔
اپنی عورت یا بالغ اولاد کا فطرہ ان کی اجازت کے بغیر ادا کر دیا تو ادا ہو جائے گا، بشرطیکہ اولاد اس کے عیال میں ہو یعنی اس کا نفقہ وغیرہ اُس کے ذمہ ہو، اگر اولاد اس کے عیال میں نہیں ہے یعنی اس کا نفقہ وغیرہ اس کے ذمہ نہیں ہے تو اولاد کی طرف سے بلا اجازت ادا نہ ہو گا۔
اجازت صراحتاً بھی لی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دلالۃً اور عرفاً بھی اجازت ہو سکتی ہے یعنی جب اولاد یا عورت کو پتا ہو کہ ہمارے والد یا شوہر ہمارا فطرہ ادا کرتے ہیں اور ادا کر دیں گے تو بھی یہ عرفاً اجازت سمجھی جائے گی یعنی ان کا حکم دینا اور ان سے کہہ کر اجازت لینا ضروری نہیں بلکہ عرفاً اس طرح ہونا بھی اجازت ہے۔
عورت نے اگر شوہر کا فطرہ بغیر حکم ادا کر دیا تو ادا نہ ہو گا۔ اسی طرح ماں باپ، دادا دادی، نابالغ بھائی اور دیگر رشتہ داروں کا فطرہ ادا کرنا آدمی کے ذمہ نہیں ہے اور ان کے حکم کے بغیر ادا نہیں کر سکتا۔ (1) واللہ اعلم
حوالہ جات
1↑ | ملتقطاً من بہار شریعت، حصہ پنجم، فطرہ کا بیان، جلد 1 |
---|