قریبی رشتے داروں یا قیدیوں میں سے اس شخص کو زکات دے سکتے ہیں جو فقیر شرعی ہو یعنی اس کے پاس اپنی حاجت اصلیہ ( زندگی گزارنے کے لئے ضروری اشیاء جیسے گھر، کپڑے، سواری، برتن وغیرہ) کے علاوہ 52.5 تولہ چاندی کی قیمت جتنی مالیت جتنا زائد مال وغیرہ نہ ہو اور وہ ہاشمی سید نہ ہو یعنی اولادِ علی، اولاد عباس، اولادِ جعفر، اولاد عقيل، اولاد حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنھم میں سے نہ ہو۔
تو ایسے شخص کو زکات دی جا سکتی ہے جب کہ اور کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔ جبکہ قریبی رشتے داروں کو زکات دینا صرف جائز ہی نہیں بلکہ افضل ہے کیونکہ اس میں ڈبل ثواب ہے۔ ایک اللّٰہ پاک کے حکم پر عمل کرکے زکات کی ادائیگی کا، دوسرا اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا۔
عام فہم اردو کتاب بہار شریعت میں جوہرہ، عالمگیری ردالمحتار کے حوالے سے لکھا ہوا ہے: زکاۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ اوّلاً اپنے بھائیوں، بہنوں کو دے پھر اُن کی اولاد کو پھر چچا اور پھوپیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ماموں اور خالہ کو پھر اُن کی اولاد کو پھر ذوی الارحام یعنی رشتہ والوں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے شہر یا گاؤں کے رہنے والوں کو۔ (1)
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے اُمتِ محمد ﷺ! قسم ہے اُس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، ﷲ اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں فرماتا، جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کرنے کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دے، قسم ہے اُس کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، ﷲ پاک اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔‘‘ (2)