ایک شخص نے کچھ رقم جمع کر کے رکھی ہوئی ہو تا کہ اس کے ذریعے حج بیت اللہ کو جا سکے یا عمرے کی ادائیگی کر سکے۔ تو اگر اس شخص کے پاس جمع شدہ رقم پر زکوۃ کی دیگر شرائط پائی جائیں مثلا 52.2 تولہ چاندی کی قیمت جتنی رقم ہو اور قرض سے فارغ ہو اور حاجت اصلیہ سے زائد ہو اور سال مکمل ہو چکا ہو چکا ہو تو اس شخص پر اپنے مال کی زکات ہر سال لازم ہو گی۔
کیونکہ حج یا عمرہ کے لیے رقم کا ہونا زکات کے فرض ہونے سے مانع نہیں ہے۔
بہار شریعت میں درمختار، ردالمحتار و غیرہما کے حوالے سے لکھا ہوا ہے: جس دَین کا مطالبہ بندوں کی طرف سے نہ ہو اس کا اس جگہ اعتبار نہیں یعنی وہ مانع زکاۃ نہیں مثلاً نذر و کفارہ و صدقۂ فطر و حج و قربانی کہ اگر ان کے مصارف نصاب سے نکالیں تو اگرچہ نصاب باقی نہ رہے زکاۃ واجب ہے، عشر و خراج واجب ہونے کے لیے دین مانع نہیں یعنی اگرچہ مدیُون ہو، یہ چیزیں اس پر واجب ہو جائیں گی۔ (1)
حوالہ جات
1↑ | بہار شریعت، جلد1، ص991، مکتبۃ المدینہ |
---|