قصداً روزہ توڑنے کی مختلف صورتیں بنتی ہیں۔
- قصداً غذا، دوا، نفع یا لذت کے طور پر کوئی چیز کھانے، پینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
- قصداً قابل شہوت مرد و عورت کے آگے یا پیچھے کے مقام میں حشفہ کے داخل ہونے سے دونوں کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
- کوئی ایسا کام کیا جس کی وجہ سے روزہ ٹوٹنے کا گمان بنتا تو نہ ہو مگر اس نے گمان کر لیا کہ روزہ ٹوٹ گیا اور پھر قصداً کھا، پی لیا۔
مذکورہ ان تینوں صورتوں کے ساتھ اگر مزید یہ بھی شرائط پائی جائیں۔۔
- اکراہ شرعی اور جبر کے طور پر یہ کام نہ کئے ہوں۔(1)۔
- ان کاموں کے کرتے وقت روزے دار ہونا یاد ہو، روزے کو بھول کر نہ کئے ہوں۔
- مقیم ہو مسافر نہ ہو۔
- رمضان میں ادا روزے کی نیت رات سے یعنی صبح صادق سے پہلے تک نیت کرلی ہو۔ دن میں ضحوی کبریٰ سے پہلے تک نیت نہ کی ہو۔
ان مذکورہ صورتوں میں شرائط کے ساتھ قصداً روزہ توڑنے سے روزے کی قضا بھی لازم ہو گی اور کفارہ بھی لازم ہو گا۔
روزہ توڑنے کا کفارہ
روزے کا کفارہ یہ ہے کہ مسلسل، لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا ہوں گے۔ اگر اس پر طاقت ہی نہیں رکھتا تو پھر ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہو گا۔
مذکورہ بالا صورتوں میں اگر روزہ توڑنے کے بعد کوئی ایسا عذر سماوی یا مرض لاحق ہو جائے جس کی وجہ سے روزہ معاف ہو جاتا ہو یا توڑنے کی اجازت مل جاتی ہو تو پھر صرف قضا لازم ہو گی، کفارہ لازم نہیں ہو گا۔ جیسے حیض وغیرہ
ان صورتوں میں کہ جن کی وجہ سے روزہ ٹوٹنے کا گمان بنتا نہ ہو مگر اس نے گمان کر لیا پھر اگر کسی مفتی نے فتویٰ دے دیا تھا کہ روزہ ٹوٹ گیا اور وہ مفتی ایسا ہو کہ اہل شہر کا اس پر اعتماد ہو، اس کے فتویٰ دینے پر اس نے قصداً کھا لیا یا اس نے کوئی حدیث سنی تھی جس کا صحیح معنی نہ سمجھ سکا اور اس غلط معنی کے لحاظ سے جان لیا کہ روزہ جاتا رہا اور قصداً کھا لیا تو اب کفّارہ لازم نہیں، اگر چہ مفتی نے غلط فتویٰ دیا ہو یا جو حدیث اس نے سنی وہ ثابت نہ ہو۔
لازمی طور پر یاد رہے کہ جن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفّارہ لازم نہیں آتا ان میں یہ بھی شرط ہے کہ ایک ہی بار ایسا ہوا ہو اور اس میں معصیت و گناہ کا ارادہ نہ کیا ہو، وگرنہ ان میں بھی کفارہ دینا ہو گا۔ واللہ اعلم
حوالہ جات
1↑ | اکراہ شرعی سے مراد کسی نے جان سے مارنے یا کسی عضو کے کاٹنے کی صحیح دھمکی دی ہو اور ظن غالب ہو کہ وہ یہ کام کر گزرے گا |
---|