کھانا سبھی گھروں میں پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ رمضان میں میں دو ٹائم اور عام دنوں میں تین ٹائم دَستر خوان لگتا ہے۔ باہر ہوٹل وغیرہ پر بھی جا کر لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ ہمارے ىہاں عموماً کھانے کے دَوران گفتگو کے موضوع بڑے مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔کھانے کے دَوران کوئی ایک موضوع تو متعین نہىں کیا جا سکتا، بس یہ ذہن میں رہے کہ جو گفتگو میں کرنے لگا ہوں یہ مجھے جنَّت کى طرف بڑھائے گى یا مَعَاذَ اللّٰہ عزوجل جہنم کى طرف دھکیلے گى؟ کھانے کے علاوہ بھی ہر ایک کو اپنی گفتگو کا یہی معیار بنانا چاہیے ۔
کھانا کھاتے ہوئےگِھن والی باتیں نہیں کرنی چاہئیں مثلاً اگر کسی شخص کو بھوک نہ ہو اور اسے کھانے کے لیے بُلایا جائے تو اب وہ یہ نہ کہے کہ میں زیادہ کھاؤں گا تو اُلٹى ہو جائے گى کیونکہ کھانا کھانے والوں کے سامنے اُلٹى کا نام لینے سے انہیں گِھن آئے گی۔ موشن،قبض اور گیس وغیرہ کے اَلفاظ بولنا بھى مناسب نہیں لگتا لیکن بعض لوگ بالکل بے تکلف ہو کر بولتے ہیں کہ”مجھے گیس بہت ہوتا ہے، مجھے موشن لگ گئے ہیں، بَواسیر کا مَرض ہو گیا ہے۔ “ایسی عیب دار بیماریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جھجک محسوس کرنی چاہیے۔
بہرحال کھاتے وقت گِھن اور کراہیت والی باتیں نہ کی جائیں۔ ایسی باتوں سے خود کو روکنا اگرچہ دُشوار ہوتا ہے، اس وقت صبر نہیں ہوتا لیکن رضائے الٰہى کے لیے صبر کریں گے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھیں گے تو اِن شآء اللّٰہ عزوجل اجر ملے گا۔ کاش ”پہلے تولو بعد میں بولو“ کا اُصول ہم اپنے اوپر نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
کھانے کو عیب نہ لگائیے
کھانے کو عیب نہ لگایا جائے مثلاً تیکھا ہے، نمک زیادہ ہے، کچا رہ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ عیب نہ زبان سے بیان کیے جائیں اور نہ ہی اِشارے میں مثلاً منہ ایسے نہ بگاڑا جائے جس سے کھانے کا تیکھا، پھیکا ہونا ظاہر ہو۔ پیارے آقا ﷺ کى عادت کریمہ یہی تھى کہ کھانا پسند آتا تو تناول فرما لیتے ورنہ ہاتھ روک لیتے۔ (1) لہٰذا ہمیں بھی کھانے کو عیب لگانے سے بچنا چاہیے۔ البتہ اگر عیب بیان کرنا ضرورت کے سبب ہو مثلاً جس نے پکایا اسے سمجھانا یا کہلوانا مقصود ہے تا کہ وہ آئندہ خیال رکھے تو اس نیت سے عیب بتانے میں حَرج نہیں۔
حوالہ جات
1↑ | بخاری، کتاب الاطعمة، باب ما عاب النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم طعاماً، ۳ / ۵۳۱، حدیث : ۵۴۰۹ دار الکتب العلمیة بیروت |
---|