میڈیا پر بیٹھ کر اس طرح کے الفاظ بولنا اور معاشرے میں ایسا نعرے کو فروغ دینا جس سے بے حیائی کو فروغ ملے اور خود کوشریعت کی پابندیوں سے آزاد سمجھنا، یعنی ایک شخص اپنی ذاتی زندگی میں آزاد ہے، خواہ مذہب ہو یا صحافت ہو یا اظہار رائے ہو وغیرہ وہ جو بھی کرے اس کی مرضی، چاہے پانی پئے ، چاہے شراب پئے غیروں کو اس اس کی نجی زندگی میں دخل اندازی کی اجازت نہیں، عوام کا یہ ذہن بنا دیا گیا ہے کہ کوئی کسی کے معاملے میں دخل اندازی نہ کرے اور اگر کردے تو اس جیسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ “یہ میرا گھر ہے میری مرضی میں اسے صاف رکھوں یا میلا ، میرا جسم میری مرضی ” وغیرہ ۔
اس کے علاوہ دین کو معاشی ، سیاسی اور سماجی زندگی سے نکال دینا ، مذہب کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈا کرنا مثال کے طور پر اسلام میں جو جہاد کا نظریہ ہے اس کے بارے میں اتنا پروپیگنڈا کیا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی اور جہاد میں کوئی فرق نہیں، پھر اسی طرح پروپیگنڈا کرکے، عورتوں کو آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر اس کے ذہنوں میں جھوٹ ڈال دینا،
جدیدیت کی طرف لوگوں کو لانا اور کہنا کہ جدید دور ہے جدید تقاضے ہیں ان کے مطابق ہمیں رہنا پڑے گا، اسلام یا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو جدید تقاضوں کے مطابق چل سکے، ہر ملک کے اندر اچھی اور اسلامی قیادت سے لوگوں کو متنفر کرنا یعنی کوئی اچھا شخص آ جائے جو ملک کو اچھی طرح چلا سکتا ہو لیکن وہ سیکولر نہ ہو تو وہ لوگوں کے درمیان پروپیگنڈا کریں گے میڈیا استعمال کریں گے اور لوگوں کو اس سے متنفر کریں گے یہاں تک کہ وہ اس کو مارنے سے بھی گریز نہیں کریں گے ۔
یہ سب کون کر رہا ہے؟
یہ سب سیکولرازم وہ لبرل ازم کے بنیادی مقاصد و اہداف میں شامل ہے۔ یہ ایک باقائدہ طبقہ ہے۔اسکی بنیا تو 312ء میں قائم ہوئی مگر اسکی ترویج 1857ء میں لندن میں شروع ہوئی ۔اور اسکی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے۔
ذرا غور تو کریں یار! ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ہمیں اس نے پیدا کیا ہے۔ یہ جسم ، یہ روح، یہ دیکھنا ، یہ چلنا پھرنا، یہ سننا ، یہ طاقت و قوت ، یہ سوچ و بچاروغیرہ سب کچھ اسکا عطا کردہ ہے اور یہ بندہ کیسے کہ سکتا ہے کہ میری زندگی میں اسکے بھیجے گئے احکام کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ معاذاللہ حتیٰ کہ اگر آپ لفظ بندہ یا عبد کا لغت میں معنی دیکھیں تو تب بھی آپ یہی معنی ملیں گےکہ غلام، مطیع، فرمانبردار، عاجز، نیازمند، پابند، عبادت کرنے والا وغیرہ۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
اس نے ہمیں اتنا پیارا دین اسلام دیا جس جیسا پوری دنیا میں کوئی دین نہیں۔ اسلام ہر طرح سے ایک مسلمان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے جو بھی احکام ہیں ان پر عمل کر نے سے اس بندے کا اپنا ہی فائدہ ہے۔اور جو حکمت ، دانائی اور دانشوری اسلام کے فرامین میں ہوتی ہے وہ دنیا دار 1000 فلاسفر بھی ہوں تو ان میں آپ کونہیں ملے گی اور جہاں ملے گی جب آپ اسکی تحقیق کو پہنچیں گے تو پتا چلے گا کہ درحقیقت یہ چیز تو ہمیں اسلام نے 1400 سال پہلے بیان کر دی تھی۔ اصل میں ہماری خرابی یہاں آتی ہے کہ ہم ہر چیز کو اپنی عقل کے ترازو میں تولنا شروع کر دیتے ہیں اور بس پھر یہیں دھوکا کھا جاتے ہیں اور بھٹک جاتے ہیں۔
ہر چیز کی حکمت
یار رہے ہر چیز کی حکمت سمجھ میں آ جائے یہ ضروری نہیں۔ اور ایک انسان کی عقل اتنی بھی نہیں کہ ہر چیز کی حکمت کو سمجھ سکے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی بھی غلطی نہ کرتا۔ اسلام ہماری ہر چیز میں رہنمائی کرتا ہے مگر ہم نے حقیقی معنوں میں کبھی اس رہنمائی کو لینے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ اور جس خدا نے اسے اشرف المخلوقات بنایا آج یہ اتنا ہو گیا کہ اپنے رب پر اعتراضات قائم کرتا ہے۔ اس مہربان رب پر جس نے ہمیں اتنی نعمتوں سے نوازا اور آخرت میں ہمارے لئے جنت کی صورت میں اجر بھی رکھا ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: کیا آدمی اس گھمنڈ میں ہے کہ اسے آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔
ارشاد فرمایا : کیا آدمی اس گھمنڈ میں ہے کہ اسے یوں آزاد چھوڑ دیا جائے گا کہ نہ اسے کسی چیز کا حکم دیا جائے اور نہ اسے کسی چیز سے منع کیا جائے، نہ وہ مرنے کے بعد اُٹھایا جائے، نہ اس سے اعمال کا حساب لیا جائے اور نہ اُسے آخرت میں جزا دی جائے ۔ ایسا نہیں ہو گا بلکہ اسے دنیا میں اَمر و نہی کا پابند کیا جائے گا،مرنے کے بعد اُٹھایا جائے گا،اس سے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور آخرت میں اسے اس کے اعمال کی جزا بھی دی جائے گی۔
ہمیں آزاد نہیں چھوڑا گیا
اس سے معلوم ہو اکہ ہمیں بالکل آزاد نہیں چھوڑا گیا کہ جیسے چاہیں زندگی گزاریں ،جیسے چاہیں اعمال کریں اور اپنی مرضی کے مطابق جس طرح اور جہاں چاہے رہیں بلکہ ہمیں دنیا کی زندگی میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے کچھ چیزوں کا پابند کیا گیاہے اور کچھ چیزوں سے منع کیاگیاہے اور زندگی گزارنے کے لئے ہمیں ایک دائرۂ کار عطا کیا گیا ہے جس میں رہ کر ہمیں اپنی زندگی کے اَیّام پورے کرنے ہیں اور ہمارے سامنے یہ بھی واضح کر دیاگیا ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور پھر دنیامیں جیسے اعمال کئے ہوں گے ویسی جزا بھی ملے گی۔
لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ خود کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد سمجھ کر زندگی نہ گزاری جائے بلکہ زندگی جینے کا جو طریقہ اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا ہے اسی کے مطابق زندگی بسر کی جائے کہ اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے اور جو شخص شریعت کے احکامات سے آزاد ہو کر جینا چاہتا ہے وہ بڑا بیوقوف اور بہت نادان ہے کہ وہ تھوڑے سے مزے کی خاطر ہمیشہ کے لئے خود کو ذلت و رُسوائی اور انتہائی دردناک عذاب میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اللہ پاک ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور ہمیں اسلامی احکام سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین