کسی شخص پر اپنے مال کی زکات فرض ہو تو اس شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی سگی بہن کو زکات دے، یا اپنے سگے بھائی کو زکات دے جب کہ وہ بہن یا بھائی مستحق زکات ہوں یعنی ان کے پاس اپنی حاجت اصلیہ (زندگی گزارنے کے لئے ضروری اشیاء جیسے گھر، کپڑے، سواری، برتن، وغیرہ) کے علاوہ 52.5 ساڑھے باون تولہ چاندی جتنی مالیت کا کوئی سامان نہ ہو۔ اور وہ ہاشمی نہ ہوں۔
لھذا جب وہ فقیر شرعی ہوں تو ان کو زکات دینا بالکل جائز ہے بلکہ افضل ہے کہ ایک تو اس میں اللّٰہ پاک کی طرف سے فرض کی گئی زکات کی ادائیگی بھی پائی جائے گی یہ ایک الگ ثواب ہے اور ساتھ ساتھ صلہ رحمی بھی پائی جائے گی اس صلہ رحمی کا الگ ثواب ہے کہ اپنے سب سے قریبی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک ہے اور اس میں اپنے ہی بھائی بہن کی امداد بھی پائی جائے گی۔
اپنے بہن، بھائی و قریبی رشتے داروں کو زکات ادا کرنے کا احسن طریقہ
زکات ادا کرتے وقت دل میں زکات کی نیت ہو کہ نیت کے بغیر زکات ادا نہیں ہو گی لیکن زکات ادا کرتے وقت زبان سے لفظ زکات کہنا ضروری نہیں ہے۔ لھذا اپنے بہن، بھائی یا دیگر قریبی رشتے داروں کو زکات ادا کرتے وقت تحفہ، ھدیہ یا عیدی وغیرہ اچھے الفاظ کہہ کر دے تو وہ خوش ہونگے اور زکات بھی ادا ہو جائے گی۔
بہار شریعت میں جوہرہ، عالمگیری ردالمحتار کے حوالے سے لکھا ہوا ہے: زکاۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ اوّلاً اپنے بھائیوں، بہنوں کو دے پھر اُن کی اولاد کو پھر چچا اور پھوپیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ماموں اور خالہ کو پھر اُن کی اولاد کو پھر ذوی الارحام یعنی رشتہ والوں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے شہر یا گاؤں کے رہنے والوں کو۔
حدیث پاک میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اے اُمتِ محمد (ﷺ) ! قسم ہے اُس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، ﷲ پاک اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں فرماتا، جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کرنے کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دے، قسم ہے اُس کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، ﷲ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔‘‘ (1)
حوالہ جات
| 1↑ | بہار شریعت، حصہ پنجم، ج1، ص945، مکتبۃ المدینہ |
|---|