میاں، بیوی میں سے ہر ایک اپنی اپنی مستقل ملکیت رکھتا ہے تو ہر ایک پر صرف اپنی ہی ملکیت کی زکات نکالنا لازم ہو گی۔ دوسرے کی ملکیت کی زکات لازم نہیں ہو گی۔ کیونکہ زکات مسلمان، عاقل، بالغ، غنی پر اپنی ہی خاص ملکیت میں موجود مال پر فرض ہوتی ہے جس کا وہ مالک ہو اور اس میں تصرف پر قدرت رکھتا ہو۔
کوئی شخص بغیر اجازت کسی دوسرے کی ملکیت کو نہ استعمال کر سکتا ہے اور نہ ہی اس میں تصرف کا حق رکھتا ہے۔ میاں بیوی میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی ملکیت الگ اور مستقل ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنی ملکیت کا اختیار ہے تو ہر ایک پر صرف اپنی ملک کی زکات لازم ہو گی۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ دونوں اپنے اموال ملالیں پھر زکات نکالیں۔ بلکہ ہر ایک جدا گانہ اپنے مال کی زکات نکالے گا۔ کیونکہ جو جس دن مال کی ملکیت کا مالک ہوا ہو گا تو سال مکمل ہونے پر دونوں کے دن بھی جدا ہونگے یوں بھی ملانا مشکل ہے۔
ہاں البتہ اگر دونوں کا سال ایک ہی دن مکمل ہو رہا ہو تو دونوں اپنے اموال کا حساب لگا کر اس کی زکات جدا کرکے اکٹھے ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ان میں سے ہر ایک دوسرے کا وکیل بن کر بھی دوسرے کے مال کا حساب لگا کر اس کے مال سے زکات ادا کر سکتا ہے۔ بس بات یہ ہے کہ کسی پر لازم نہیں ہے کہ دوسرے کی طرف سے زکات ادا کرے بلکہ ہر ایک کے ملکیت کے کل مال کا الگ حساب لگانا لازم ہے تو حساب لگانے کے بعد دوسرے کی اجازت سے ادا کی جاسکتی ہے۔
البتہ اگر یہ مراد لی جائے کہ میاں بیوی میں سے دونوں یا کسی ایک کے علیحدہ مال پر زکات واجب نہ ہو رہی ہو لیکن ملائیں گے تو زکات واجب ہو گی تو اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ شریعت نے ہمیں اس کا حکم نہیں دیا ہے۔ واللہ اعلم