سب سے پہلے یہ مسئلہ سمجھ لیں کہ سونے پر زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہو۔ لہٰذا کسی عورت یا مرد کے پاس مثلاً فقط دو تولہ سونا ہی ہے اس کے علاوہ کوئی مالِ زکوۃ (چاندی ، نقدی، پرائز بانڈ، مال تجارت) نہیں ہے تو ان پر زکوۃ واجب نہیں ہو گی کیونکہ سونے کا نصاب مکمل نہیں ہے۔
ہاں اگر ان کی ملکیت میں سونے کے علاوہ کوئی اور مالِ زکوۃ یعنی چاندی، نقدی، کرنسی ، مال تجارت وغیرہ حاجت اصلیہ سے زائد ہے اور قرض سے فارغ ہے اور یہ اس سونے کے ساتھ مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے یا اس سے زیادہ ہو تو سال گزرنے پر اس عورت یا مرد پر زکوۃ واجب ہو گی۔
جب عورت یا مرد کے مال میں دیگر شرائطِ زکات پائے جانے کے ساتھ سال مکمل ہونے پر زکات ادا کرنا فرض ہو جائے، تو اسے فوراً زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے، سال مکمل ہو جانے کے بعد تاخیر کرنا گناہ ہے۔
لہٰذا جس صورت میں زکات فرض ہو گئی ہے اور دوسری نقدی نہیں ہے مثلاً رات کو سال مکمل ہو رہا تھا اس وقت تین تولہ سونہ اور ایک لاکھ روپے تھا مگر ایک دن بعد پیسے خرچ کر دئے اب نقدی نہیں ہے لیکن زکات تو ایک دن پہلے فرض ہو گئی تھی تو سونے میں سے چالیسواں حصہ ہی بطور زکات کے دے دے یا اس کو بیچ کر زکات ادا کرے اور اگر سونا بیچنا نہیں چاہتے تو بھی زکات ادا کرنا ضروری ہے لھذا کسی سے قرض لے کر زکوۃ فوراً ادا کردی جائے پھر جب پیسے آئیں تو اسے لوٹا دے۔
بہرحال جب زکات فرض ہو تو ادائیگی ضروری ہے وگرنہ تاخیر کرنا گناہ ہے۔ اب یا سونا وغیرہ بیچ کر زکٰوۃ دی جائے یا قرض لے کر ادا کی جائے یا کسی بھی طرح سے۔ واللہ اعلم