کسی شخص پر اپنے مال کی زکات فرض ہوئی اور اس نے حکم شرع بجا لاتے ہوئے اپنے مال سے چالیسواں حصہ زکات کے لیے الگ کیا اور کسی فقیر کو دینے جا رہا تھا کہ کسی ڈکیت نے گن پوائنٹ پر اس سے وہ رقم چھین لی۔
اس صورت میں وہ زکات ادا نہ ہو گی۔ کیونکہ زکات کے ادا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی مستحق زکات کی ملک کر دیا جائے، کسی مستحق کی ملک میں جانے سے قبل زکات ادا نہیں ہو گی۔ تو جب مال چھن جانے کی صورت میں کسی مستحق تک پہنچا نہیں تو پھر زکات ادا نہیں ہوئی۔ دوبارہ زکات ادا کرنی ہو گی۔ فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب ردالمحتار المعروف فتاویٰ شامی میں ہے:
ترجمہ : زکات کے مال کو اپنے مال سے صرف جدا کرنے کے ذریعے ذمہ سے بری نہیں ہو گا بلکہ فقیر کو دے کر مالک بنانا ضروری ہے، تو اگر دینے سے قبل ضائع ہو جائے تو زکات ساقط نہیں ہو گی۔ (1)
حوالہ جات
| 1↑ | ردالمحتار 3/225 دار المعرفۃ |
|---|