مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، صاحبِ نصاب پر اپنے مال کی زکات فرض ہوتی ہے، کہ جب وہ مال مالِ نامی ہو اور حاجت اصلیہ سے زائد ہو اور وہ مال مالک کے قبضہ و قدرت میں ہو اور قرض سے فارغ ہو اور اس مال پر ایک سال گزرا ہو۔
زکاۃ کی تعریف
زکات ﷲ پاک کے لیے مال میں سے ایک مقرر کردہ حصے کو کہتے ہیں جو کسی مسلمان فقیر کو دی جاتی ہے اور وہ فقیر ہاشمی نہ ہو اور اپنا نفع اس مال سے بالکل جدا کر لے۔
زکات فرض ہونے کی شرائط
زکات ہر کسی پر فرض نہیں ہوتی بلکہ زکات واجب ہونے کے لئے چند شرائط ہیں تو جس شخص میں وہ شرائط پائی جائیں فقط اس پر زکات لازم ہو گی۔
- مسلمان ہونا۔
- آزاد ہونا
- عاقل اور بالغ ہونا
- بقدر نصاب مال کا مالک ہونا (1)
مال حقیقی یا حکمی قبضے میں ہو اور اس پر قدرت رکھتا ہو۔ - اس کے پاس موجود نصاب قرض سے فارغ ہو۔ (2)
- نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو۔ (3)
- مال نامی ہو۔ (4)
- اس مال نصاب پر پورا ایک سال گزرا ہو۔ (5) (6)
جس شخص میں یہ شرائط پائی جائیں تو اس پر زکات فرض ہو گی اور پھر مال کے چالیسویں حصے کا کسی زکات کے مستحق بندے کو مالک بنایا دیا جائے گا یا کسی بندے یا ادارے کو وکیل کیا جائے گا کہ وہ کسی مستحق زکات کو مالک بنا دے۔
حوالہ جات
1↑ | یعنی ساڑھے سات تولہ سونا یا 52.5 تولہ چاندی یا اتنی قیمت کا مالک ہو |
---|---|
2↑ | یعنی اس پر اتنا قرض نہ ہو کہ اس کی ادائیگی کے بعد نصاب پورا نہ ہو پائے |
3↑ | حاجت اصلیہ سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کی طرف زندگی گزارنے میں آدمی کو ضرورت و حاجت پڑتی ہو۔ جیسے رہنے کا مکان، سردی، گرمی میں پہننے کے کپڑے، خانہ داری کا سامان، سواری کا جانور اور گاڑی، پیشہ وروں کے اوزار، اہل علم کے لیے حاجت کی کتابیں، کھانے کے لیے غلّہ وغیرہ ضروری اشیاء |
4↑ | مال نامی سے مراد وہ مال جو بڑھنے والا ہو، زیادہ ہونے والا ہو، اور بڑھنے و زیادہ ہونے کی صلاحیت رکھنے والا ہو۔ جیسے سونا، چاندی، کرنسی، مال تجارت، چرائی والا جانور |
5↑ | سال سے مراد قمری سال ہے یعنی چاند کے مہینوں کے بارہ مہینے۔ شروع سال اور آخر سال میں نصاب کامل ہو، اگر درمیان میں نصاب کی کمی ہو گئی تو یہ کمی کچھ اثر نہیں رکھتی یعنی پھر بھی زکاۃ واجب ہو گی۔ |
6↑ | ملتقطاً من بہار شریعت، حصہ پنجم، ج1، عن رد المحتار و الفتاوی الھندیہ و غیرھما |