ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا۔ ہم ایک اللّہ اور اس کے خاتم النبیین ﷺ اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں ایک طرز زندگی دی ہے، ہمیں زندگی گزارنے کا ایک اسلوب دیا ہے۔ ہماری ریاست بھی اسلام ہے ہماری سیاست بھی اسلام ہے۔ ہم ریاست کو اسلام سے الگ نہیں سمجھتے ریاست اسلامی قوانین کے مطابق ہو حکومت و سیاست اسلامی قوانین اور اسلامی تعلیمات کے تحت ہی ہونی چاہیئے۔
اسلامی طرز زندگی اور مغربی تہذیب میں بہت تضاد ہے۔ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ظاہری طور پر تو مغرب کے غلام نہیں ہیں لیکن ذہنی طور پر غلام ہیں۔ مغرب سے جو بھی آواز اٹھتی ہے، ہم اس کو بغیر سوچے سمجھے تسلیم کر لیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ ہمارے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ اس ذہنی غلامی کی بنیاد پر ہم نے ایک اور فتنہ کو بھی قبول کر لیا جس کا نام “سیکولرازم” ہے۔ ہماری اس ذہنی غلامی کی وجہ سے سیکولرازم کو بہت فروغ ملا ہے۔
سیکولرازم نظام کیا ہے؟
یہ ایک طرز زندگی ہے جس میں ریاستی اداروں اور مذہبی معاملات کو الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ سیکولرازم نظام دین کو معاشی، سیاسی اور سماجی زندگی سے نکال دیتا ہے۔ سیکولرازم کے دو بڑے معاشی نظام ہیں:
- کمیونزم نظام
- کیپیٹلزم نظام
کیپیٹلزم (Capitalism)
پہلے ہر جگہ جاگیردارانہ نظام رائج تھا جس میں ایک بہت بڑے جاگیردار کے ماتحت بہت سارے غریب لوگ کام کرتے تھے اور وہ ان کے حقوق کو پامال کرتا اور اپنے مال و دولت کو بڑھاتا رہتا۔ اسی کی ایک تھوڑی سی جدید صورت کا نام کیپیٹلزم ہے۔
کیپیٹلزم ایسا اقتصادی نظام ہے جس میں پیداوار کے وسائل کی ملکیت اور ان کا استعمال نجی افراد یا اداروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کیپیٹلزم میں سرمایہ کار اپنی محنت یا ذہانت کے ذریعے دولت پیدا کرتے ہیں، اور پھر اس دولت کو کاروباروں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں تاکہ مزید دولت پیدا کی جا سکے۔
اس میں ہر کسی کو کمانے کی کھلی اجازت ہوتی ہے البتہ اس نظام میں ملازمین کے کچھ حقوق متعین کر دیے گئے ہیں۔ جس کی بناء پر اس کو بہت زیادہ فروغ ملا اور اکثر ممالک میں آج کیپیٹل ازم ہی رائج ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی چال
مغربی فکر چونکہ انسان کو ایک productive entity کے طور پر دیکھتی ہے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ گھر سنبھالنے والی عورت کو ‘بےکار’ مانتی ہے بلکہ ساتھ ہی وہ تمام لوازمات مہیا کرتی ہے جو عورت کو سرمایہ داریت کے نقطہ نظر سے کارآمد بنا سکیں۔ بچے اور بوڑھے، یہ معاشرے کے وہ دو طبقات ہیں جو نہ صرف خود سرمایہ داریت کے نقطہ نظر سے non productive ہیں بلکہ یہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی non productive بناتے ہیں۔
مثلاً : گھر پر اگر کوئی بزرگ ہیں یا چھوٹے بچے ہیں تو والدین میں سے کسی ایک کا ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک productive resource اب بچوں اور بوڑھوں کی وجہ سے non productive بن گیا ہے۔ اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں چار ہفتے کے بچے کو بھی daycare میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جبکہ بوڑھے اگر پیسے والے ہوں تو old age home میں چلے جاتے ہیں۔ ورنہ سڑکوں پر رلتے پھرتے ہیں، کوئی پوچھنے والا، کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
یہاں بھی یہ عنصر دماغ سے محو نہ ہو جائے کہ ڈے کیئر اور اولڈ ایج ہوم میں بھی سنبھالنے والوں کو تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ گھر میں یہ کام Free of Cost ہو رہا تھا۔
مخلصی کے کھوکھلے دعوے
پھر عورتوں کے ساتھ مخلصی کے کھوکھلے دعوے بھی یہاں کام نہیں کرتے۔ گھر میں عورت، اپنے بچوں کو پالے تو وہ ناکارہ ہے۔ ڈے کیئر میں دوسروں کے بچوں کو پالے تو کار آمد ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام، اسلامی خاندانی تصور کے ساتھ کبھی پھل پھول نہیں سکتا۔
کیونکہ اس نظام کو زیادہ سے زیادہ productive لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور non productive لوگ ناسور ہیں۔ لہٰذا یہ بات پلّو سے باندھ لیں کہ سرمایہ داریت کے سائے کے نیچے مادی ترقی کرتے ہوئے خاندان کو مضبوط رکھنا نا ممکن ہے۔ اسی لئے اس نظام میں رہتے ہوئے آپ کو یہ “ہاہاکار” بہت سننے کو ملے گی کہ “ملک کی آدھی آبادی تو گھروں میں بیٹھی ہے ملک کیسے ترقی کرے گا۔”
کمیونزم
وہ نظام جس میں دولت اور وسائل کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے۔ کمیونزم دنیا میں کئی ممالک میں نافذ کیا گیا ہے۔ سوویت یونین، چین، اور کوبا کمیونزم کے سب سے نمایاں مثالیں ہیں، لیکن ان ممالک میں یہ بری طرح ناکام ہو گیا۔
دنیا میں موجودہ وقت میں، کیپیٹلزم سب سے زیادہ عام نظام ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام ممالک میں کیپیٹلزم کا نظام نافذ ہے، کمیونزم کچھ ممالک میں ہے۔ درحقیقت کیپیٹلزم یورپ کا ہی نظام ہے، یورپ نے اس نظام کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔
- آسان الفاظ میں یوں کہ سیکولرازم میں دنیا داری ہی ہوتی ہے،
- اس میں مذھبی آزادی کے نام پر مغربی کلچرکو فروغ دیا جاتا ہے،
- اس میں ترقی کے نام پر مغربی تعلیم کو فروغ دیا جاتا ہے،
- یہ اخلاقی زوال کا سبب ہے۔
مسلم سیکولر لوگ اور ان سے سوالات
مسلم سیکولرز کہتے ہیں کہ ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو پھر وہ ان چند سوالات کا جواب دیں یا پھر اپنی منافقت کا اعتراف کریں۔
- سیکولر لوگ بولتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی و معاشی نظام ناکافی ہے اور اس کو سیکولرازم اور شوشل ازم کی ضرورت ہے کہ تو اس کو قرآن و حدیث سے پیش کریں؟
- سیکولرز کہتے ہیں کہ سورہ کافرون سیکولر اور کثیر المذہبی ریاست کا حکم دیتی ہے تو رسول اللّٰہ ﷺ نے مکہ میں سورہ کافرون نازل ہونے کے بعد کثیر المذہبی یا سیکولر حکومت قائم کیوں نہیں کی؟ بلکہ آپ ﷺ نے مدینہ میں خالص اسلامی ریاست قائم کرکے مکہ کو فتح کیا، کیا نبی کریم ﷺ اللّہ پاک کے حکم کو نہ سمجھ پائے تھے (معاذ اللہ)
- اللہ پاک نے قرآن پاک میں دین کو غالب کرنے کا حکم دیا ہے تو قرآن سے ان آیات کو کیسے نکالا جائے؟
اس طرح کے اور بھی کافی سوالات ان پر بنتے ہیں تو کیا وہ ان سوالات کا جواب دے کر اپنی دعوے کو سچا ثابت کریں گے یا پھر اپنی منافقت کا اعتراف کر لیں گے!
اس طرح کے کثیر سوالات ہیں جو کہ مسلم سیکولرز پر دھبہ ہیں وہ ہمیشہ اپنے دعوؤں سے روگردانی کرتے ہیں ان کا مقصد صرف اسلامی خاندانی نظام اور اسلام کے قوانین اور طور طریقوں کو ختم کرنا مسلمانوں کو ترقی کے نام پر اسلام سے دور کرنا ہے۔ اللہ پاک ہمیں اسلام کی سمجھ بوجھ اور دینی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین