راہِ خدا میں دینے سے مال ضائع نہیں ہوتا

راہ خدا میں دینے سے مال ضائع نہیں ہوتا

راہِ خدا میں دینے کے لیے دِل بدلتا رہتا ہے لہٰذا جیسے ہی نیت بنے تو ممکنہ صورت میں اسی وقت عطیات جمع کروا دئیے جائیں۔ حضرت سیدنا امام باقر علیہ رحمۃ اللہ القادر جب واش روم (بیت الخلا) تشریف لے گئے اسی وقت واپس دروازے پر آکر اپنے خادم کو بُلایا اور اپنا جبہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جبہ فُلاں کو دے آؤ۔

پھر جب آپ بیتُ الخلا سے فراغت کے بعد باہر تشریف لائے تو خادم نے عرض کیا:حضور!ایسی بھی کیا جلدی تھی،آپ اِطمینان سے فارغ ہو کر مجھے دے دیتے؟آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا:میں جب اندر گیا تو میرے دِل میں خیال آیا کہ یہ جبہ فُلاں کو دے دوں پھر میں نے سوچا کہ نیکی میں دیر نہیں ہونی چاہیے کہیں میرا دِل بدل نہ جائے تو میں نے سوچا پہلے یہ جبہ دے دوں تاکہ میرا ثواب کھرا ہو جائے۔ (1)

راہ خدا میں دینے سے مال ضائع نہیں ہوتا

بہت سوں کو تجربہ ہو گا کہ بعض اوقات دِل میں خیال آتا ہے یہ کریں گے وہ کریں گے۔ پھر آہستہ آہستہ سستی ہونا شروع ہو جاتی ہے خصوصاً راہ خدا میں دیتے ہوئے بہت سستی ہوتی ہے کیونکہ اس میں جیب سے جاتا ہے اور بندہ لیتا تو واہ وا کر کے ہے مگر دیتا آہ آہ کر کے ہے۔ دِل میں کھٹکا ہوتا ہے کہ یار یہ مال گیا حالانکہ راہِ خدا میں دینے سے مال کہیں نہیں جاتا بلکہ آخرت کے لیے جمع ہو جاتا ہے اور جمع بھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں سے کسی قسم کی چوری ہونے کا اندیشہ ہی نہیں رہتا۔

بعض لوگ صِرف اپنی حرص کی وجہ سے راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھتے، ان کو مال کی فکر لگی رہتی ہے جبکہ وقت کا کچھ بھروسا نہیں کب بینک لُٹ جائے اور ان کا Locker توڑ کر پیسے چرالیے جائیں لیکن راہ ِخُدا میں دیا ہوا مال نہ کبھی لُٹ سکتا ہے نہ گھٹ سکتا ہے بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔

صَدَقہ پوشیدہ دینا چاہیے یا اِعلانیہ؟

صَدَقہ دینے کی مختلف صورتیں ہوتى ہیں۔ کہیں چھپا کر دینا افضل ہوتا ہے اور کہیں سب کے سامنے دینا افضل ہوتا ہے۔

اِنَّما الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّات
یعنی اَعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (2)صَدَقہ چھپا کر دینے کے اپنے فضائل ہیں کہ چھپا کر صَدَقہ دینا اللہ پاک کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ (3) یوں ہی اِعلانیہ صَدَقہ دینے کے اپنے فضائل ہیں مثلاً اگر کسی نے سب کے سامنے اس لیے صَدَقہ دیا کہ دوسروں کو بھی تَرغیب ملے، دوسروں کا بھی دینے کا جذبہ بڑھے تو ظاہر ہے کہ یہ ثواب کا کام ہے۔

ہاں اگر کسی نے صَدَقہ اس لیے ظاہر کر کے دیا کہ لوگ مجھے سخى اور دلیر سمجھیں تو اس نے غَلَط کام کیا کیونکہ عبادت سے کسى کے دِل میں اپنا اِحترام اپنى عزت بنانے والا رِیا کار اور جہنم کا حقدار ہے۔ ہر ایک اپنی نیت پر غور کر لے کہ وہ کس نیت سے عَلى الاعلان صَدَقہ و خیرات کر رہاہے۔ یاد رکھیے ! صَدَقے کے لیے نہ تو ایسا کالا بکرا دینے کی ضرورت ہے جس میں ایک بھى بال سفید نہ ہو اور نہ ہی کالى مرغى کو سر پر سے گھماکر دینے کی حاجت بلکہ جو بھی اللہ کی راہ میں دیا جائے وہ صَدَقہ ہے۔

نفلی عبادات دوسروں پر ظاہر نہ کیجیے

عموماً لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی نیکى بِلا ضَرورت ظاہر کرتے ہیں مثلاً میں اتنى تلاوت کرتا ہوں،میں نے اتنے قرآنِ پاک ختم کر لیے ہیں،روزانہ اتنے دُرُود شرىف پڑھتا ہوں، کوئی کہتا ہے کہ میں تین مہینے کے روزے رکھتا ہوں ،کوئی کیا کہتا ہے اور کوئی کیا کہتا ہے۔ بہرحال اپنی نفلی عبادات ظاہر نہیں کرنی چاہئیں ۔

فرض عبادات اِعلانیہ ادا کیجیے

البتہ فرض عبادات کا معاملہ الگ ہے مثلاً رَمَضان کا روزہ فرض ہے تو اس کو عَلى الاعلان رکھناہے تاکہ کوئى بدگمانى نہ کرے کہ پتا نہیں رکھتا ہو گا یا نہیں ۔ اسى طرح پانچوں وقت کى نماز بھی باجماعت مسجد میں ادا کرنی واجب ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں گھر میں چھپ کر نماز پڑھوں گا تو اسے بِلاعذر جماعت چھوڑنے کا گناہ ہوگا ۔ یوں ہی حج بھی عَلى الاعلان کیا جاتا ہے کہ لاکھوں لوگ ایک ہى میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ میں چھپ کر حج کروں گا تو وہ کیسے کرے گا؟ بہرحال جیسى عبادت ہو گی ویسے ہی اس کا حکم ہو گا اور اجر ہر ایک کو نیت کے مطابق ملے گا۔

5/5 - (1 vote)

حوالہ جات

حوالہ جات
1 1 – فتاویٰ رضویہ، ۱۰ / ۸۴ ماخوذاً رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور
2 بخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء…الخ، ۱ / ۵، حدیث : ۱
3 ترمذی، کتاب الزکاة، باب ما جاء فی فضل الصدقة، ۲ / ۱۴۶، حدیث : ۶۶۴ دار الفكر بيروت

توجہ فرمائیں! اس ویب سائیٹ میں اگر آپ کسی قسم کی غلطی پائیں تو ہمیں ضرور اطلاع فرمائیں۔ ہم آپ کے شکر گزار رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں