کھانے میں عیب نکالنامکروہ و خلافِ سنت ہے اور اگر اس کی وجہ سے کھانا پکانے والے یا میزبان کی دل آزاری ہوجائے تو ممنوع ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سرورِ عالم ﷺ نے کبھی کسی کھانے کو عیب نہیں لگایا (یعنی برا نہیں کہا) اگر خواہش ہوتی تو کھا لیتے اور خواہش نہ ہوتی تو چھوڑ دیتے۔
(بخاری، کتاب الاطعمۃ، رقم۵۴۰۹،ج۳،ص۵۳۱ )
کسی کے گھر کھانے میں عیب نکالنے کا عذر
امام اہل سنت الشاہ مولانا احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں : ” کھانے میں عیب نکالنا اپنے گھر میں بھی نہ چاہے،مکروہ وخلاف سنت ہے ۔ سرکارِ دو عالم ﷺ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ پسند آیا تو تناول فرما لیا ورنہ نہیں ۔
رہا پرائے گھر میں عیب نکالنا تواس میں مسلمانوں کی دل شکنی ہے اور کمالِ حرص وبے مروتی پر دلیل ہے ۔ ”گھی کم ہے یا مزہ کا نہیں ”یہ عیب نکالنا ہے اور اگر کوئی شے اسے مضر(نقصان دیتی) ہے ، اسے نہ کھانے کے لئے عذر کیا ،اس کا اظہار کیا نہ کہ بطورِ طعن وعیب مثلاً اس میں مرچ زائد ہے اور اتنی مرچ کا یہ عادی نہیں تو یہ عیب نکالنا نہیں اور اتنا بھی اس وقت ہے کہ جب بے تکلفی خاص کی جگہ ہو اور اس کے سبب دعوت کنندہ (یعنی میزبان) کو اور تکلیف نہ کرنی پڑے مثلاً دو قسم کا سالن ہے ،ایک میں مرچ زائد ہے اور یہ عادی نہیں تو اسے نہ کھائے اور وجہ پوچھی جائے تو بتادے ۔
اور اگر ایک ہی قسم کا کھانا ہے ،اب اگر یہ نہیں کھاتا تو دعوت کنندہ کو اس کے لئے کچھ اور منگانا پڑے گا ، اُسے ندامت ہوگی اور تنگ دست ہے تو تکلیف ہوگی تو ایسی حالت میں مروت یہ ہے کہ صبر کرے اور کھائے اور اپنی اذیت ظاہر نہ کرے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاویٰ رضویہ ،ج ۱۰،نصف آخر ،ص ۱۱۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حوالے سے بھی اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ عليہ وسلم