آپ کا سوال نماز میں رکوع کے بعد ہاتھ لٹکا کر چھوڑنے کے حکم کے بارے میں ہے۔ اس سے متعلق شرعی حکم اور اس کی تفصیلات ذیل میں موجود ہیں۔
رکوع کے بعد ہاتھوں کو کھلا چھوڑنے کا حکم
نماز میں رکوع کرنے کے بعد کھڑے ہونے کو قومہ کہتے ہیں۔ تو نماز میں رکوع کرنے کے بعد قومہ میں ہاتھ لٹکا کر چھوڑ دینا سنت ہے۔
ہاتھ باندھنے اور کھلا چھوڑنے کا اصول
نماز میں کس مقام پر ہاتھ باندھنے ہیں اور کس پر نہیں، اس کے متعلق اصول یہ ہے کہ:
- ہر وہ قیام جس میں قرار (ٹھہراؤ) ہو اور اس میں کوئی مسنون ذکر ہو یعنی کچھ پڑھنا سنت ہو، تو اس میں ہاتھ باندھنا سنت ہے۔ جیسے ثناء اور دعائے قنوت پڑھتے ہوئے ہاتھ باندھے جاتے ہیں۔
- اور جس مقام میں کوئی مسنون ذکر نہ ہو، تو اس میں ہاتھ نہ باندھنا اور یونہی لٹکا کر چھوڑ دینا سنت ہے۔ جیسے کہ رکوع کے وقت اور تکبیراتِ عیدین کے وقت کہ ان میں کوئی مسنون ذکر نہیں ہے یعنی اس وقت کچھ پڑھا نہیں جاتا۔
“اللھم ربنا و لک الحمد” کے متعلق وضاحت
باقی رہی یہ بات کہ رکوع کے بعد “اللھم ربنا و لک الحمد” پڑھا جاتا ہے تو یہ بھی مسنون ذکر ہوا، لہذا اس اصول کے مطابق رکوع کے بعد قومہ میں ہاتھ باندھنے چاہئیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ “اللھم ربنا و لک الحمد” قومہ میں کھڑے ہونے کی تسبیح نہیں ہے، بلکہ رکوع سے اٹھنے اور اس سے انتقال کی تسبیح ہے۔ یعنی رکوع سے جیسے ہی اٹھنا شروع کریں گے تو فوراً یہ تسبیح پڑھنا شروع کریں گے، اور دراصل یہ قومہ کی تسبیح نہیں ہے اگرچہ طویل ہونے کی وجہ سے قومہ میں بھی پہنچ جاتی ہے۔
فقہی حوالہ جات
نماز میں ہاتھ باندھنے اور کھولنے کے متعلق فقہ کی کتاب الھدایہ میں مذکور ہے:
ترجمہ: “اور اُصول یہ ہے کہ ہر وہ قیام جس میں ذکرِ مسنون ہو، اس میں ہاتھ باندھے جائیں گے اور وہ قیام جس میں مسنون ذکر نہیں، اس میں ہاتھ نہیں باندھے جائیں گے، یہی صحیح ہے۔” (1)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
ترجمہ: “اور رکوع میں ہاتھ لٹکا کر چھوڑنے پر سب کا اتفاق ہے کیونکہ تسبیح منتقل ہونے کے لیے سنت ہے نہ کہ قومہ کے لیے۔” (2)