علمائے متأخرین نے موجودہ دور میں ضرورت کو دیکھتے ہوئے مذہبی شعار کی حفاظت کے پیشِ نظر امامت، مؤذنی، قرآن کی تعلیم وغیرہ ضروری شعار پر اجارہ یعنی تنخواہ لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ لہٰذا امامت اور مؤذنی پر اجرت لینا جائز ہے جبکہ اجرت کی دیگر تمام شرائط پائی جائیں۔
اسی طرح مسجد کے چندے کی رقم سے بھی خطیب، امام صاحب اور مؤذن وغیرہ کو تنخواہ دینا جائز ہے۔ جبکہ تنخواہ اتنی ہو جو کہ عام طور پر اتنی بنتی ہے۔ تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
ترجمہ : اور وقف کی آمدن سب سے پہلے اس کی عمارت پر لگائی جائے گی، عمارت کے بعد آمدنی اس چیز پر صَرف کی جائے گی جو عمارت سے قریب تر (اور با عتبار مصالح مفید تر ہو کہ یہ معنوی عمارت ہے) جیسے مسجد کے ليے امام اور مدرسہ کے ليے مدرس (کہ ان سے مسجد و مدرسہ کی آباد کاری ہے)، اِن کو بقدر کفایت وقف کی آمدنی سے دیا جائے گا ۔(1)
حوالہ جات
1↑ | تنویر الابصار و درمختار، کتاب الوقف، جلد 6، صفحہ 562، مطبوعہ کوئٹہ |
---|