- مجلد: یعنی ایسی جرابیں جن کے اوپر نیچے ٹخنوں تک کا حصہ چمڑے کا ہو یا کسی دوسری چیز کا ہو ، لیکن اس پر اوپر نیچے چمڑا جوڑ دیا گیا ہو۔
- منعل: یعنی وہ جرابیں جن کا تلوا چمڑے کا بنایا گیا یا تلوے پر چمڑا جوڑ دیا گیا ہو۔
- ثخین: یعنی وہ جرابیں جو اتنی موٹی اور مضبوط ہوں کہ تنہا انہیں جرابوں کو پہن کر (تین میل یا زیادہ) سفر کریں، تو وہ پھٹ نہ جائیں اور اُن پر پانی پڑے تو روک لیں، فوراً پاؤں کی طرف پانی نہ چلا جائے۔ نیز کسی چیز سے باندھے بغیر پاؤں پر رکی رہیں۔
پہلی دونوں قسموں پر مسح کرنا تمام ائمہ احناف کے نزدیک جائز ہے جبکہ تیسری قسم پر مسح کرنا صاحبین کے نزدیک جائز ہے اور اسی پر فی زمانہ فتویٰ ہے۔
تو پوچھے گئے سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ جرابیں اگر واقعی طور پر اتنی موٹی اور مضبوط ہیں کہ بغیر چپل یا شُوز پہنے فقط ان کو پہن کر مسلسل (تین میل یا زیادہ ) چلنا ممکن ہے اور اس چیز کا تجربہ یا غالب ظن ہے کہ اتنا سفر کرنے سے یہ پھٹیں گی نہیں ، تو پھر مفتی بہ قول کے مطابق ایسی جرابوں پر مسح جائز ہے۔
لیکن اگر ان میں یہ دونوں شرائط نہ پائی جاتی ہوں یعنی اتنی مضبوط نہیں کہ تین میل تک صرف وہ پاؤں میں پہن کر چل سکیں بلکہ پھٹ جائیں گی یا پانی کو نہ روک سکیں اور فورا پاؤں تک پہنچ جائے گا تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہوگا۔
ایسے امام کی اقتداء کا حکم
اگر امام نے ان جرابوں پر مسح کیا ہے جو شرعاً مسح کے قابل نہیں، یعنی نہ وہ مجلد ہیں، نہ منعل، نہ شرعی طور پر ثخین، تو اس کا وضو صحیح نہیں اور جس کا وضو درست نہ ہو اس کی نماز بھی درست نہیں۔ ایسے شخص کی امامت بھی درست نہیں، لہٰذا اس کی اقتداء بھی ناجائز ہوگی۔
تاہم اگر امام کے موزے ثخین تھے جیسا کہ صاحبین کے نزدیک مسح جائز ہے اور انہی کی تقلید پر عمل کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں اقتداء کی گنجائش نکل سکتی ہے، خاص طور پر جہاں عوام الناس میں یہی معمول ہو۔
اعلیٰ حضرت کا فتویٰ
امام احمد رضا خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”سُوتی یا اُونی موزے جیسے ہمارے بلاد میں رائج(ہیں) ان پر مسح کسی کے نزدیک درست نہیں کہ نہ وہ مجلد ہیں، نہ منعل، نہ ثخین، جو پائتابے ان تینوں وصف سے خالی ہوں اُن پر مسح بالاتفاق ناجائز ہے“۔ (1)
حوالہ جات
1↑ | فتاویٰ رضویہ، جلد04، صفحہ346، رضا فاؤنڈیشن، لاھور |
---|