احناف کے نزدیک جمعہ کی نماز قائم کرنے کے لیے حاکمِ اسلام یا اس کا اجازت یافتہ ہونا شرط ہے۔ چونکہ دور اول میں سلاطین اسلام علم دین سے مربوط رہتے تھے اور عالم یا علماء کی زیر نگرانی سلطنت چلاتے تھے اور قاضی مفتی ہوتے تھے، اسلئے اسلام کے بہت سے احکام حاکم و قاضی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسے حدود و قصاص وغیرہ
مگر جوں ہی زمانہ رسالت دور ہوتا گیا مسلمانوں میں گناہوں کا زور بڑھتا گیا حتیٰ کہ اس وقت آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران فاسق و فاجر دین سے دور علم دین سے ناواقف ہیں۔
لھذا ایسی صورت میں اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو تو وہاں کا جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقیدہ عالم مفتی ہو، وہ احکام شرعیہ جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہے، وہی جمعہ قائم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بغیر اس کی اجازت کے جمعہ قائم نہیں ہو سکتا۔
اور اگر یہ صورت نہ پائی جائے تو عام عوام لوگوں کی اکثریت و مجموعہ جس کو منتخب کرکے جمعہ کے لیے امام بنائیں اور وہ عالم ہو تو وہ جمعہ پڑھا سکتا ہے۔
البتہ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں۔