ابلیس، جسے شیطان بھی کہا جاتا ہے، دراصل فرشتہ نہیں بلکہ جن تھا، جسے آگ سے پیدا کیا گیا تھا۔ وہ فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اور عبادات اور طاعت میں ممتاز تھا، یہاں تک کہ وہ اللہ کے قریب ترین مقامات پر فائز ہو گیا تھا۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابلیس چالیس ہزار برس تک جنت کا خزانچی اور اَسّی ہزار برس تک ملائکہ کا ساتھی رہا۔ وہ فرشتوں کو نصیحت کرنے اور روحانیین کا سردار رہنے کی سعادت بھی رکھتا تھا۔ مختلف آسمانوں پر اس کے مختلف نام تھے جیسے عابد، زاہد، عارف، اور ولی۔ لیکن لوحِ محفوظ میں اس کا نام “ابلیس” ہی لکھا تھا اور یہ اپنے انجام سے غافل اور بے خبر تھا۔ (1)
اللہ تعالیٰ کے حکم سے انکار اور مردود ہونا
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد فرشتوں اور ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ مگر ابلیس نے اپنی تخلیق یعنی آگ کی بنیاد پر خود کو حضرت آدم علیہ السلام، جو مٹی سے بنائے گئے تھے، سے برتر سمجھا اور تکبر میں آ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس جرم کی پاداش میں اللہ نے اسے مردود قرار دے کر ہمیشہ کے لیے ملعون کر دیا اور اس پر عذابِ جہنم کا وعدہ کر دیا۔
شیطان کا عہد اور انسانی دشمنی
شیطان نے اپنے انجام کو قبول کرتے ہوئے قسم کھا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے عہد کیا کہ وہ انسانوں کو صراطِ مستقیم سے گمراہ کرے گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ انسانوں کے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں سے انہیں بہکانے کی کوشش کرے گا، تاکہ انہیں اللہ کا شکر گزار ہونے سے روک دے۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اس کا ذکر ہے اور اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ شیطان ہمیشہ انسان کے خیر کے راستے میں رکاوٹ بنے گا۔
قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ؕ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنْہُ ۚ خَلَقْتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿12﴾قَالَ فَاہۡبِطْ مِنْہَا فَمَا یَکُوۡنُ لَکَ اَنۡ تَتَکَبَّرَ فِیۡہَا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیۡنَ ﴿13﴾قَالَ اَنۡظِرْنِیۡۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوۡنَ ﴿14﴾قَالَ اِنَّکَ مِنَ المُنۡظَرِیۡنَ ﴿15﴾قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیۡتَنِیۡ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیۡمَ ﴿ۙ16﴾ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیۡمَانِہِمْ وَعَنۡ شَمَآئِلِہِمْ ؕ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیۡنَ ﴿17﴾قَالَ اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُوۡمًا مَّدْحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنْہُمْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿18﴾
ترجمہ:۔ فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تونے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔ فرمایا تو یہاں سے اتر جا تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے نکل تو ہے ذلت والوں میں بولا مجھے فرصت دے اس دن تک کہ لوگ اٹھائے جائیں فرمایا تجھے مہلت ہے بولا تو قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں گا ان کے آگے اور پیچھے اور داہنے اوربائیں سے اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا فرمایا یہاں سے نکل جا رد کیا گیا راندہ ہوا ضرور جو ان میں سے تیرے کہے پر چلا میں تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔ (2)
درسِ ہدایت اور عبرت
قرآن مجید نے اس عبرتناک واقعے کو مختلف سورتوں جیسے سورہ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ حجر، سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ طٰہٰ اور سورہ ص میں بیان کیا ہے۔ اس واقعے سے درج ذیل سبق ملتے ہیں:
1. عبادت اور نیکی پر غرور کی ممانعت
ابلیس کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عبادتوں اور نیکیوں پر کبھی غرور نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ صرف خاتمہ بالخیر ہی اصل نجات کا سبب ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْم
یعنی اعمال کا اعتبار خاتموں پر ہے۔ بڑی سے بڑی عبادت بھی اگر خاتمہ بالخیر نہ ہو تو بے کار ہے۔ (3)
2. شیطان کے وسوسوں سے ہوشیاری
ہر مسلمان کو چاہیے کہ شیطان کے وسوسوں اور چالوں سے خبردار رہے۔ شیطان نے خدا کے سامنے یہ عہد کیا ہے کہ وہ انسان کو مختلف جہتوں سے بہکانے کی کوشش کرے گا اور اسے اللہ کی نافرمانی میں مبتلا کرے گا۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ بیدار اور محتاط رہنا چاہیے تاکہ ہم اس کی چالوں سے محفوظ رہ سکیں۔
3. اوپر اور نیچے کی جانب سے شیطانی وسوسوں کا فقدان
شیطان نے چار اطراف سے حملہ کرنے کا عزم کیا، مگر اوپر اور نیچے سے وسوسے ڈالنے کی بات نہیں کی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر انسان اوپر سے روشنی یا نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے تو یہ خیر کی علامت ہو سکتی ہے اور اسے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
نتیجہ
ابلیس کی داستان ہمیں یاد دہانی کراتی ہے کہ غرور اور تکبر انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے اور ہمیں اپنی عبادتوں پر کبھی فخر یا گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھے اور خاتمہ بالخیر کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔