اس کا اصل نام علی محمد تھا اورباپ کا نام محمد رضا، جو شیراز کا ایک تاجرتھا۔ مرزا علی محمد نے بابی فرقہ کی بنیاد رکھی۔ فارسی و عربی کی ابتدائی کتب پڑھتے ہی اس نے سخت ریاضتیں کرکے زہد میں نام کمایا۔ پھر کربلا میں سید کاظم مجتہد کے حلقہ درس میں شریک رہا۔ سید کاظم کے مرنے کے بعد اس کے بہت سے شاگرد لے کر کوفہ پہنچا اور وہاں اپنی مصنوعی عبادتوں سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرلیا۔
پھر ۱۲۶۰ھ میں اپنے چیلوں سے یہ اظہار کیا کہ جس مہدی کا انتظار کیا جارہا تھا وہ میں ہی ہوں اور اسکے ثبوت میں بعض احادیث جن میں مہدی موعود کے آثار ذکر کئے گئے ہیں وہ پیش کیے اور کہا یہ تمام آثار مجھ میں پوری طرح پائے جاتے ہیں۔ غالباً اس نے نبوت کا دعوی بھی کیا تھا۔
مرزا علی محمد نے اپنا معجزہ کس کو کہا
جب اس سے معجزہ طلب کیا گیا تو کہنے لگا میری تحریر و تقریر ہی معجزہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا معجزہ ہوسکتا ہے کہ میں ایک ہی دن میں ایک ہزار شعر مناجات میں تصنیف کرتا ہوں۔ پھر اسے خود لکھتا بھی ہوں اور اس نے اپنی چند مناجات لوگوں پر پیش کیں جس میں اعراب تک درست نہ تھا۔ جب اس پر اعتراض ہوا تو کہا : علم ایک گناہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے اب تک غضب الٰہی کاشکار تھا۔ میری شفاعت کی وجہ سے اس کی خطا معاف ہوئی اور یہ حکم دیا گیا کہ اب نحوی غلطیوں کا مضائقہ نہیں آئندہ کوئی اگر نحوی غلطی کرے تو کچھ حرج نہیں۔
ایک اور حربہ
عوام کو مائل کرنے کے لیے ایک حربہ اور ملاحظہ فرمائیے : اس نے اعلان کیا کہ میرے وجود سے تمام ادیان متحد ہوجائیں گے کیونکہ میں آئندہ سال مکہ معظمہ سے خروج کروں گا اور جملہ روئے زمین پر قبضہ کروں گا۔ لہٰذا جب تک تمام ادیان متحد نہ ہوں نیز تمام دنیا میری مطیع نہ ہوجائے اس وقت تک تمام مَردوں پر تکالیف شرعیہ معاف ہیں۔ اب اگر کوئی میرا مرید احکام شرعیہ ادا نہ کرے تواس پر مواخذہ نہیں ہے اس اعلان سے بھی دنیا پرست عیش کوش لوگ اس کے فریب میں آتے گئے ذرا ان کے مذہب کا حال ملاحظہ ہو:
- بہن بھائی میں جنسی تعلقات بلا نکاح بھی قائم کرنا رواتھا۔
- ایک عورت نو آدمیوں سے نکاح کرسکتی تھی بالفاظ دیگر نو آدمی ایک عورت سے نکاح کرنے کے روادار تھے۔
- کسی مذہب کی پابندی نہ تھی اس مادر پدر آزادی کا نتیجہ نہایت بھیانک نکلا اس کے متبعین لوگوں میں اعلانیہ فسق و فجور کا بازار گرم ہوگیا اس نے اپنے مریدوں کو چند احکام بھی دئیے تھے وہ بطور اشعار تھے ملاحظہ ہوں:
- چونکہ تمام دنیا میرے زیرنگیں ہوگی نیز تمام دنیا میں ایک مذہب ہونا ہے لہٰذا میں آئندہ برس مکہ سے خروج کروں گا تاکہ دنیا میرے قبضے میں آجائے اور میرے وجود سے مقصود اغراض پوری ہوجائیں اس کے نتیجے میں یقینا دشمنان خدا کی جانیں جسم سے جدا ہونگی ہزاروں خون کی ندیا بہیں گی پس جملہ مریدوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ بطور علامت و شگون اپنے خطوط کو سرخ کیا کریں۔
- السلام علیک کے بجائے ”مرحبا بک ”سلام مقررکیا جاتاہے۔
- اذا ن میں میرا نام بھی داخل ہو ۔
اس کا لقب باب کیسے پڑا
بابی کا کہنا تھا کہ ( معاذ اللہ ) محمد ﷺ و علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیعت کی اور اب تک یہ دونوں ہستیاں جدا جدا تھیں میں ان دونوں کا جامع ہوا اس لیے میرا نام بھی علی محمد ہے نیز جس طرح کوئی آدمی بغیر باب(1)کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح مجھے دیکھے بغیر اور مجھ سے اجازت لیے بغیر خدا اور دین خدا تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ اس کے چیلوں نے یہ مذکورہ بکواس سن کر ہی اس کا لقب باب کردیا۔
مرزا علی محمد باب کی تصنیف
باب نے اپنے تصنیف کردہ مجموعہ کے ایک حصہ کا نام قرآن دوسرے کا نام مناجات رکھا بابی فرقے کے چند عقائد ملاحظہ ہوں۔
- خدا کہیں غائب نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہمارے اپنے اندر موجود ہے۔ سو جب ہم اسے اپنے اندر دیکھتے ہیں تو وہی اس سے ملاقات کا دن ہوتا ہے۔ یہ ملاقات قیامت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہماری ز ندگی سے متعلق ہے ۔
- ہمارا مرتبہ دیکھ کر وہ قرآن مسلمانوں کے قرآن سے کئی حصہ بہتر ہے ۔
- حشر و نشر سے مراد نیکی و بدی کی زندگی ہے۔ اگر کوئی شخص گناہ گار ہے وہ مُردہ ہوجاتا ہے۔ لیکن جو ں ہی وہ نیک لوگوں کے پاس آتا ہے وہ زندہ ہوجاتا ہے۔ گویا گناہوں کی زندگی چھوڑ کر نیکوں کے پاس آنا ہی حشر و نشر ہے۔ اس کے علاوہ قیامت کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ فتنہ پرور شخص کئی سال تک ایران پر چھایا رہا اس دوران شیعوں سے اسکے مناظرے بھی ہوئے آخر کار اسے چہریق کے قلعے میں قید کردیا گیا۔ یہاں تک کہ ۱۲۶۵ ھ میں اسے گولی مار دی گئی اور اس کی لاش گلی کوچوں میں گھما کر باہر ڈلوادی گئی ۔(2)