ڈاکوؤں کى ایک ٹیم اپنے مِشن یعنی ڈاکا زنی پر جا رہى تھى۔ راستے میں کسى ہوٹل میں یہ کہہ کر پڑاؤ کیا کہ ہم راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔ رات یہاں رُکیں گے اور پھر دِن میں جہاد پر روانہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ صبح ہونے پر وہ چلے گئے۔ لوٹ مار کر کے پھر واپسى اسى ہوٹل میں آ کر ٹھہرے۔ جاتے ہوئے انہوں نے ہوٹل کے مالک کا ایک بچہ دیکھا تھا جو بالکل اپاہج تھا، ہاتھ پاؤں اس کے بے کار تھے، چل پھر نہیں سکتا تھا لیکن واپسی پر انہوں نے دیکھا کہ وہ چل پھر ر ہا تھا، دوڑ رہا تھا۔ ان ڈاکوؤں نے اِس پر تعجب کا اِظہار کیا اور ہوٹل کے مالک سے پوچھا کہ یہ بچہ تو ہم نے مَعذور دیکھا تھا لیکن اب یہ صحیح ہو گیا ہے، اس کى کیا وجہ ہے؟
ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ آپ لوگوں نے جو کھانا کھایا تھا، اس میں سے جو پلیٹ میں بچ گیا تو میں نے اس حُسنِ ظَن کی بِنا پر کہ آپ نیک لوگ ہیں، اللہ کے راستے میں نکلے ہوئے ہیں وہ جوٹھا کھانا اپنے اس بیٹے کو کھلا دیا تو آپ کے جوٹھے کى بَرکت سے میرا بچہ بالکل نارمل ہو گیا۔ ڈاکو یہ سُن کر رو پڑے اور انہوں نے اپنے گناہوں سے یہ سوچ کر توبہ کر لی کہ اللہ پاک اتنا مہربان ہے اور ہم لوگ کس قدر نافرمان ہیں کہ لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ (1)
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ فقط پیر صاحِب یا ہمارے فُلاں عالِم یا فُلاں خطیب صاحِب کا جوٹھا ہی شِفا دے گا تو بے شک ان کا جوٹھا بھى اچھا ہے، شِفا والا ہے لیکن عام مسلمان کے جُوٹھے میں بھی شِفا ہے۔
مسلمان کا جوٹھا کھانے پینے میں اَجر و ثواب
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: اپنے مسلمان بھائى کا جوٹھا پینا اَجر والا کام ہے اور جو اپنے بھائى کا جوٹھا پیتا ہے اس کے لیے 70 نیکیاں لکھى جاتى ہیں،70 گناہ مِٹائے جاتے ہیں اور 70 دَرَجات بلند کیے جاتے ہیں۔ (2) اِس رِوایت سے اَندازہ لگائیے کہ مسلمان کے جُوٹھے پانی کی کیسى فضیلت ہے کہ اس کے پینے سے اتنی اتنی نیکیاں مِل رہی ہیں ۔
جُوٹھا کھانے پینے میں تکبر اور غُربت کا عِلاج
بعض لوگ اپنے مسلمان بھائى کا جُوٹھا کھانے پینے میں مَعَاذَ اللّٰہ عزوجل گِھن کھاتے ہیں حالانکہ اپنے مسلمان بھائى کا جُوٹھا کھانا پینا عاجزى والا کام ہے۔ لہٰذا مسلمان کے جوٹھے کھانے پینے سے شرمانے اور گِھن کھانے کے بجائے اسے اِستعمال کر لینا چاہیے۔ اگر سب مسلمان ایک دوسرے کا جُوٹھا کھا پی لینے کی عادت بنا لیں تو ہمارے مُعاشرے سے تنگدستى اور غُربت میں اچھی خاصی کمی آ جائے۔
لوگوں کو وافر مِقدار میں کھانا ملے گا اور مہنگائى پر بھی کنٹرول ہو گا کیونکہ مہنگائی اُس وقت ہوتی ہے جب خریداری زیادہ کی جاتی ہے، جب لوگ خریدارى کم کریں گے تو دکانوں پر اسٹاک پڑا رہے گا، بکے گا نہیں تو پھر یہ سستا کریں گے۔ (3)۔ بہرحال اللہ پاک اور اس کے رَسُول ﷺ کے اَحکامات پر عمل کرنے میں ہی دِینی و دُنیوی فَوائد ہیں۔ اللہ کرے دِل میں اُتر جائے میرى بات۔
حوالہ جات
1↑ | کتاب القلیوبی، ص۲۰ ماخوذاً باب المدینه کراچی |
---|---|
2↑ | کنزالعمال، حرف التا، کتاب الاخلاق، الجزء : ۳ ، ۲ / ۵۱، حدیث : ۵۷۴۵، قال العجلونی معناه صحیح دار الکتب العلمیة بیروت |
3↑ | حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم اپنے مُریدوں سے کھانے کی اَشیا کے بھاؤ پوچھا کرتے تو آپ سے کہا جاتا : ان کی قیمتیں حَد سے بڑھ گئی ہیں ۔ اِرشاد فرماتے : انہیں خریدنا چھوڑ دو خود ہی سستی ہو جائیں گی ۔ (احیاء العلوم، کتاب کسر الشھوتین، بیان فوائد الجوع وآفات الشبع، ۳ / ۱۰۸ دار صادر بیروت |