عقیقہ بچے کی پیدائش پر شکرانے کے طور پر کیا جانے والا ایک مستحب عمل ہے۔ اگر کوئی شخص عقیقہ نہ کرے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا، لیکن کرنا باعثِ ثواب اور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
عقیقہ کا مسنون طریقہ
عقیقے کے لیے بہتر وقت بچے کی پیدائش کے ساتویں دن کو قرار دیا گیا ہے۔ اسی دن بچے کا نام رکھنا، اس کا سر منڈوانا، اور عقیقہ کرنا افضل عمل ہے۔
سر منڈوانے کے بعد بالوں کو تول کر اس کے برابر چاندی یا سونا صدقہ کرنا بھی مستحب عمل ہے۔
اگر ساتویں دن عقیقہ ممکن نہ ہو تو زندگی میں جب بھی موقع ملے، یہ سنت ادا کی جا سکتی ہے، یہاں تک کہ بالغ ہونے کے بعد بھی عقیقہ کرنا درست ہے۔
حدیثِ مبارکہ سے رہنمائی
صحیح بخاری کی حدیث ہے:
سَلْمَانُ بْنُ عَامِرٍ الضَّبِّيُّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ، فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى
ترجمہ: حضرت سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول ﷲ ﷺ کو فرماتے سنا کہ “لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے، تو اس کی طرف سے خون بہاؤ (یعنی جانور ذبح کرو) اور اس سے اذیت کو دور کرو (یعنی اس کا سر منڈا دو)”۔ (1)
“أميطوا عنه الأذى” کا مفہوم
اس حدیث کے الفاظ “أميطوا عنه الأذى” کا مطلب ہے: “بچے سے اذیت کو دور کرو”۔ شارحینِ حدیث کے مطابق، اس اذیت سے مراد وہ گندگی اور بال ہیں جو پیدائش کے وقت بچے کے سر پر ہوتے ہیں۔ اگرچہ پیدائش کے بعد غسل دینے سے یہ صاف ہو جاتے ہیں، تاہم سر منڈوانا صفائی اور ادب کا زیادہ مکمل اظہار ہے۔
فقہی موقف
فقہی کتب میں عقیقہ کے وقت سر منڈوانا ضروری تو نہیں لکھا گیا، مگر مستحب ضرور قرار دیا گیا ہے۔ یعنی یہ عمل قابلِ تعریف اور ثواب کا باعث ہے، اور سنتِ نبوی ﷺ سے ثابت ہے، لیکن نہ کرنے پر گناہ نہیں ہوگا۔
لہٰذا ساتویں دن عقیقہ کرتے وقت بچے کا سر منڈوانا سنت اور افضل عمل ہے، اور اگر اس کے بعد کیا جائے تو بھی سنت ادا ہو جائے گی۔
حوالہ جات
1↑ | صحیح البخاری، کتاب العقیقۃ، باب إماطۃ الأذی عن الصبی في العقیقۃ، ج05، ص2082، دار ابن کثیر، بیروت |
---|