ایک زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس کی زندگی شان و شوکت اور دنیاوی آسائشوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ اپنی حکومت اور طاقت کے نشے میں اللہ تعالیٰ کو بھول چکا تھا۔ لیکن ایک دن، اللہ نے اس کے دل میں آخرت کا خیال ڈالا اور وہ سوچنے لگا کہ یہ دنیاوی نعمتیں جلد ختم ہو جائیں گی اور میری بادشاہت مجھے اللہ عزوجل کی عبادت سے غافل کر چکی ہے۔
اسی غور و فکر کے بعد، وہ ایک رات اپنے محل سے خاموشی سے نکلا اور ساری رات سفر کرتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو وہ اپنے ملک کی سرحد عبور کر چکا تھا اور ساحل سمندر کے قریب جا پہنچا۔ وہاں اس نے دنیاوی آسائشیں چھوڑ دیں اور سادہ زندگی اختیار کر لی۔ وہ اینٹیں بنا کر فروخت کرتا اور جو رقم ملتی، اس میں سے صرف اپنے ضروری اخراجات کے لیے رکھتا اور باقی سب صدقہ کر دیتا۔
دوسرے بادشاہ سے ملاقات
کئی سال اسی طرح گزر گئے۔ اس کی زندگی کی سادگی کی خبر اُس وقت کے بادشاہ تک پہنچی، جس نے اُسے اپنے دربار میں آنے کا حکم بھیجا۔ لیکن اُس نیک شخص نے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے بادشاہ سے کیا کام، میں اپنے رب کی رضا میں خوش ہوں۔ بادشاہ نے دوبارہ پیغام بھیجا، مگر وہ پھر بھی نہ آیا۔
آخرکار، بادشاہ خود گھوڑے پر سوار ہو کر ساحل سمندر کی طرف آیا۔ جب نیک شخص نے بادشاہ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ بھاگنے لگا۔ بادشاہ بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہا لیکن وہ نیک شخص جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ بادشاہ نے بلند آواز سے کہا: “اے اللہ کے بندے! میں تجھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا، میں تجھ سے صرف ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔”
یہ سن کر وہ نیک شخص بادشاہ کے سامنے آ گیا۔ بادشاہ نے کہا: “اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے، تم کون ہو اور یہاں کیوں ہو؟” اُس نیک شخص نے اپنا تعارف کرایا اور کہا: “میں ایک بادشاہ تھا، لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ یہ دنیاوی دولت اور عیش و عشرت جلد ختم ہو جائیں گے، اور میری بادشاہت نے مجھے غفلت میں مبتلا کر رکھا ہے، تو میں نے توبہ کی اور دنیاوی زندگی کو چھوڑ کر اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول ہو گیا۔”
بادشاہوں کی قبریں
اس پر بادشاہ نے کہا: “بھائی، تم نے جو کیا ہے، اس کا میں تم سے زیادہ حقدار ہوں۔” یہ کہہ کر بادشاہ نے اپنا گھوڑا چھوڑ دیا اور اُس نیک شخص کے ساتھ رہنے لگا۔ دونوں نے اپنی زندگیاں اللہ کی عبادت میں گزارنے کا عہد کیا اور دعا کی: “اے ہمارے رب! ہمیں ایک ساتھ موت عطا فرما۔” چنانچہ ان دونوں کا ایک ہی دن انتقال ہوا اور ان کی قبریں بھی ساتھ ہی بنائی گئیں۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اگر میں مصر میں ہوتا تو ان کی قبروں کی جو نشانیاں ہمیں اللہ کے نبی ﷺ نے بتائی ہیں میں ان کی وجہ سے انہیں ضرور پہچان لیتا اور تمہیں وہ قبریں ضرور دکھاتا۔” (1)
حوالہ جات
1↑ | المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد اﷲ بن مسعود، الحدیث: ۴۳۱۲، ج۲، ص۶۶ا۔۱۶۷ |
---|
وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی بہت عزت والا،بہت بخشش والا ہے۔ (سورۃ الملک، 2)