کچھ لوگ اللہ پاک کا نام لینے کے بجائے اسے “اوپر والا” کہہ کر پکارتے ہیں، جو ایک خطرناک عمل ہے اور انسان کو گمراہی اور کفر کی طرف لے جا سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کوئی یہ گمان کرتے ہوئے کہے کہ اللہ پاک اوپر رہتا ہے، تو یہ کفر ہو جائے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک کی ذات کسی خاص سمت، مقام یا جگہ سے بالاتر ہے۔
ترجمہ: اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے تو تم جدھر منہ کرو ادھر ہی اللہ کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہے۔ بیشک اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (1)
اللہ پاک ہر قسم کے مکانی اور زمانی حدود سے پاک ہے۔ وہ کسی ایک سمت میں محدود نہیں، جیسے کہ پورب، پچھم، شمال، جنوب، اوپر، نیچے، آگے یا پیچھے۔ یہ سب سمتیں اور جگہیں اللہ پاک کی مخلوق ہیں، اور ان کا وجود اللہ کے پیدا کرنے کے بعد ہوا۔ جب یہ سمتیں، جگہیں، اور زمان و مکان کچھ بھی نہیں تھا، تب بھی اللہ پاک کی ذات قائم تھی اور اس کی حقیقت کو انسان کی عقل یا شعور سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
لہٰذا، یہ کہنا کہ اللہ پاک کسی خاص جگہ یا سمت میں موجود ہے، یا اسے “اوپر” کہنا، اللہ کی ذات کے بارے میں ناقص فہم کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ وہ ہستی ہے جس نے ہر چیز کو تخلیق کیا، اور وہ ان تمام تخلیق کردہ چیزوں سے ماوراء ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنا جو اُسے کسی سمت یا جگہ کے ساتھ محدود کرے، انتہائی غلط ہے۔
مسلمان کا یہ ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ پاک ہر شے پر قادر ہے اور اُس کی ذات کسی مخصوص سمت یا مقام سے منسوب نہیں کی جا سکتی۔ اللہ کا ذکر اور اُس کا نام لینا ایک عظیم عبادت ہے، اور یہی انسان کی تخلیق کا مقصد بھی ہے۔ اللہ کا ذکر کرنے اور اُس کی عبادت کرنے سے انسان کو روحانی سکون اور ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ ہمیں ہر لمحے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ پاک جو چاہے، وہی ہوگا، اور جو وہ فیصلہ کرے، وہی حق اور سچ ہے۔
یوں کہنا چاہئے کہ “اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا، اور اللہ جو کرے گا وہی حقیقت میں وقوع پذیر ہوگا۔” اللہ کا ذکر انسان کے دل کو زندگی بخشتا ہے اور اس کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر کام میں اللہ کا نام لے، اس کی تعریف کرے اور اس کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ (2)