خاموشی کی عادت اپنانے میں استقامت کے لئے بطورِ ترغیب ان واقعات کا مطالعہ فرمائیں۔
(1) ایک شخص بارگاہِ اقد س ا میں بہت زیادہ بول رہا تھا توآپ ﷺ نے فرمایا: ”تیری زبان پر کتنے پردے ہیں ؟“ اس نے عرض کیا :”دو ہونٹ اوردانتوں کے درمیان چھپی ہوئی ہے۔“ فرمایا:” تیری زبان کو روکنے کے لیے کیا یہ چیزیں کم ہیں؟“ (1)
(2) حضرت سیدنا ابوایوب انصاری رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی:”مجھے کوئی مختصر نصیحت فرمائیے۔“ سرورِ کونین ﷺ نے فرمایا:”جب تم اپنی نماز کے لئے کھڑے ہو تو رخصت ہونے والے کی سی نماز پڑھو(2)، کوئی ایسی بات نہ کرو، جس کے بارے میں بعد میں معذرت کرنی پڑے اور لوگوں کے ہاتھوں میں موجود اشیاء سے مکمل طور پر مایوس ہوجاؤ(3)۔“ (4)
مچھلی کے پیٹ تک
(3) حضرت سیدنا یونس رضي اللہ عنہ جب مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تو طویل عرصہ تک خاموش رہے ۔کسی نے پوچھا : ”آپ کچھ بولتے کیوں نہیں؟“ ارشاد فرمایا:”اسی بولنے نے تو مجھے مچھلی کے پیٹ تک پہنچایا تھا ۔“(5)
(4) حضرت سیدنا عمر فاروق رضي اللہ عنہ ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضي اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ آپ اپنی زبان کو پکڑ کر فرمارہے ہیں : ”یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے مصیبتوں میں گرفتار کر رکھا ہے ۔“(6)
(5) حضرت عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ ایک مرتبہ صفا پر کھڑے ہوکر تلبیہ پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے :”اے زبان ! اچھی بات کہو فائدہ ہوگا اور بری بات سے خاموشی اختیار کرو سلامت رہو گی اس سے پہلے کہ تمہیں ندامت اٹھانی پڑے ۔“(7)
یہ سونے کا کون سا وقت ہے؟
(6) حضرت سیدنا مالک بن صغیم رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا رباح القیسی رضي اللہ عنہ نمازِ عصر کے بعد ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا :”اپنے والد محترم کو باہر بھیجئے۔“ میں نے عرض کی :”وہ تو سو رہے ہیں ۔“ تو آپ یہ کہتے ہوئے پلٹ گئے کہ ”یہ سونے کا کون سا وقت ہے ؟“ میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا ۔ میں نے دیکھا کہ آپ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے فرما رہے ہیں :”ابوالفضول! تم نے یہ کیوں کہا کہ یہ سونے کا کون سا وقت ہے ؟ آخر تجھے یہ فضول بات کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اب تمہیں سزا بھگتنا ہوگی ، میں سال بھر تجھے تکیہ پر سر نہیں رکھنے دوں گا ۔“ میں نے دیکھا کہ یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے سیلاب ِ اشک رواں تھا ۔(8)
زبان پر حکومت
(7) کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ ”حضرت سیدنااحنف رضي الله عنه آپ لوگوں کے سردار کیسے بنے حالانکہ نہ تو وہ عمر میں سب سے بڑے ہیں اور نہ ہی مال ودولت میں؟“ تو انہوں نے ارشاد فرمایا : ”انہیں یہ سرداری اپنی زبان پر حکومت کرنے (9)کی وجہ سے نصیب ہوئی ہے۔“(10)
(8) حضرت سیدنا حسان بن سنان تابعی رضي الله عنه ایک بلند مکان کے پاس سے گزرے تو اس کے مالک سے دریافت کیا :”یہ مکان بنائے تمہیں کتنا عرصہ گزرا ہے ؟“ یہ سوال کرنے کے بعد آپ دل میں سخت نادم ہوئے اور اپنے نفس سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے ،”اے مغرور نفس ! تو بے کار وبے مقصد سوالات میں قیمتی وقت کو ضائع کرتا ہے ۔“ پھر اس فضول سوال کے کفارے میں آپ نے ایک سال کے روزے رکھے ۔(11)
اپنی بات کا مالک
(9) منقول ہے کہ ایک مرتبہ چار ممالک کے بادشاہ کسی جگہ جمع ہوئے تو ایران کے بادشاہ نے کہا:”میں نہ بول کر کبھی نہیں پچھتایا لیکن بولنے کی وجہ سے بارہا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔“ روم کے بادشاہ نے کہا :”اپنی ان کہی بات کی تردید میرے لئے بہت آسان تھی جبکہ کہی ہوئی بات کی تردید مجھے بے حد دُشوار محسوس ہوئی ۔“ چین کے بادشاہ نے کہا :”جب تک میں خاموش رہا میں اپنی بات کا مالک تھا لیکن جب وہ بات کہہ بیٹھا تو وہ میری مالکہ بن گئی ۔“ ہند کے بادشاہ نے کہا:”مجھے تو بولنے والے پر حیرت ہے کہ وہ ایسی بات کہتا ہی کیوں ہے ؟کہ جو منہ سے نکل جائے تو نقصان دے اور اگر نہ نکلے توکچھ نفع نہ دے ۔“(12)
(10) ایک مرتبہ بادشاہ بہرام کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اسے کسی پرندے کے بولنے کی آواز سنائی دی ۔ اس نے پرندے کی طرف تیر پھینکا جو اسے جالگا اور وہ ہلاک ہوگیا ۔ بہرام نے کہا :”زبان کی حفاظت انسان اور پرندے دونوں کے لئے مفید ہے کہ اگر یہ نہ بولتا تو اس کی جان بچ جاتی ۔“(13)
یہ تمام واقعات زبان کے سلسلے میں احتیاط پسندی کے آئینہ دار ہیں۔ ہمیں بھی اپنے اکابرین کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے حفاظتِ زبان کے لئے عملی کوشش شروع کردینی چاہے ، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو ۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حوالہ جات
1↑ | اتحاف السادۃ المتقین ،کتاب آفات اللسان ، ج۹،ص۱۶۳ |
---|---|
2↑ | یعنی آخری نماز سمجھ کر پڑھو |
3↑ | یعنی کسی سے مال ملنے کی امید نہ رکھو |
4↑ | مشکوۃ المصابیح،کتاب الرقاق رقم:۵۲۲۶، ج۳،ص۱۱۶، |
5↑, 10↑, 12↑ | المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر،ج۱ ، ص ۱۴۷ |
6↑ | تاریخ الخلفاء ، ص ۱۰۰ |
7↑ | احیاء العلوم ،کتاب آفات اللسان، ج۳،ص۱۳۵ |
8↑ | کیمیائے سعادت ج۲،ص ۸۹۳ |
9↑ | قابو پانے |
11↑ | منہاج العابدین ، ص ۷۲ |
13↑ | المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر ،ج۱، ص ۱۴۷ |