بلعم بن باعوراء:۔یہ شخص اپنے دور کا بہت بڑا عالم اور عابد و زاہد تھا۔ اور اس کو اسم اعظم کا بھی علم تھا۔ یہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا اپنی روحانیت سے عرش اعظم کو دیکھ لیا کرتا تھا۔ اور بہت ہی مستجاب الدعوات تھا کہ اس کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوا کرتی تھیں۔ اس کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی، مشہور یہ ہے کہ اس کی درسگاہ میں طالب علموں کی دواتیں بارہ ہزار تھیں۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ”قوم جبارین” سے جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوئے تو بلعم بن باعوراء کی قوم اس کے پاس گھبرائی ہوئی آئی اور کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت ہی بڑا اور نہایت ہی طاقتور لشکر لے کر حملہ آور ہونے والے ہیں۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو ہماری زمینوں سے نکال کر یہ زمین اپنی قوم بنی اسرائیل کو دے دیں۔ اس لئے آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ایسی بددعا کر دیجئے کہ وہ شکست کھا کر واپس چلے جائیں۔ آپ چونکہ مستجاب الدعوات ہیں اس لئے آپ کی دعا ضرور مقبول ہوجائے گی۔ یہ سن کر بلعم بن باعوراء کانپ اٹھا۔ اور کہنے لگا کہ تمہارا برا ہو۔ خدا کی پناہ! حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔ اور ان کے لشکر میں مومنوں اور فرشتوں کی جماعت ہے ان پر بھلا میں کیسے اور کس طرح بددعا کرسکتا ہوں؟ لیکن اس کی قوم نے رو رو کر اور گڑگڑا کر اس طرح اصرار کیا کہ اس نے یہ کہہ دیا کہ استخارہ کرلینے کے بعد اگر مجھے اجازت مل گئی تو بددعا کردوں گا۔ مگر استخارہ کے بعد جب اس کو بددعا کی اجازت نہیں ملی تو اس نے صاف صاف جواب دے دیا کہ اگر میں بددعا کروں گاتو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔
اس کے بعد اس کی قوم نے بہت سے گراں قدر ہدایا اور تحائف اس کی خدمت میں پیش کر کے بے پناہ اصرار کیا۔ یہاں تک کہ بلعم بن باعوراء پر حرص اور لالچ کا بھوت سوار ہو گیا، اور وہ مال کے جال میں پھنس گیا۔ اور اپنی گدھی پر سوار ہو کر بددعا کے لئے چل پڑا۔ راستہ میں بار بار اس کی گدھی ٹھہر جاتی اور منہ موڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ مگر یہ اس کو مار مار کر آگے بڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ گدھی کو اللہ تعالیٰ نے گویائی کی طاقت عطا فرمائی۔ اور اس نے کہا کہ افسوس! اے بلعم باعوراء تو کہاں اور کدھر جا رہا ہے؟ دیکھ! میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روکتے اور میر امنہ موڑ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ اے بلعم! تیرا برا ہو کیا تو اللہ کے نبی اور مومنین کی جماعت پر بددعا کریگا؟ گدھی کی تقریر سن کر بھی بلعم بن باعوراء واپس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ”حسبان” نامی پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور بلندی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکروں کو بغور دیکھا اور مال و دولت کے لالچ میں اس نے بددعا شروع کردی۔ لیکن خدا عزوجل کی شان کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے بددعا کرتا تھا۔ مگر اس کی زبان پر اس کی قوم کے لئے بددعا جاری ہوجاتی تھی۔ یہ دیکھ کر کئی مرتبہ اس کی قوم نے ٹوکا کہ اے بلعم! تم تو الٹی بددعا کررہے ہو۔ تو اس نے کہا کہ اے میری قوم! میں کیا کروں میں بولتا کچھ اور ہوں اور میری زبان سے کچھ اور ہی نکلتا ہے۔ پھر اچانک اس پر یہ غضب ِ الٰہی نازل ہو گیا کہ ناگہاں اس کی زبان لٹک کر اس کے سینے پر آگئی۔ اس وقت بلعم بن باعوراء نے اپنی قوم سے رو کر کہا کہ افسوس میری دنیا و آخرت دونوں برباد و غارت ہوگئیں۔ میرا ایمان جاتا رہا اور میں قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو گیا۔ اب میری کوئی دعا قبول نہیں ہوسکتی۔ مگر میں تم لوگوں کو مکر کی ایک چال بتاتا ہوں تم لوگ ایسا کرو تو شاید حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکروں کو شکست ہوجائے۔ تم لوگ ہزاروں خوبصورت لڑکیوں کو بہترین پوشاک اور زیورات پہنا کر بنی اسرائیل کے لشکروں میں بھیج دو۔ اگر ان کا ایک آد می بھی زنا کریگا تو پورے لشکر کو شکست ہوجائے گی۔ چنانچہ بلعم بن باعوراء کی قوم نے اس کے بتائے ہوئے مکر کا جال بچھایا۔ اور بہت سی خوبصورت دوشیزاؤں کو بناؤ سنگھار کرا کر بنی اسرائیل کے لشکروں میں بھیجا۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کا ایک رئیس ایک لڑکی کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گیا اور اس کو اپنی گود میں اٹھا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے گیا۔ اور فتویٰ پوچھا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی! یہ عورت میرے لئے حلال ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ خبردار! یہ تیرے لئے حرام ہے۔ فوراً اس کو اپنے سے الگ کردے۔ اور اللہ عزوجل کے عذاب سے ڈر۔ مگر اس رئیس پر غلبہ شہوت کا ایسا زبردست بھوت سوار ہو گیا تھا کہ وہ اپنے نبی علیہ السلام کے فرمان کو ٹھکرا کر اُس عورت کو اپنے خیمہ میں لے گیا۔ اور زنا کاری میں مشغول ہو گیا۔ اس گناہ کی نحوست کا یہ اثر ہوا کہ بنی اسرائیل کے لشکر میں اچانک طاعون (پلیگ)کی وبا پھیل گئی اور گھنٹے بھر میں ستر ہزار آدمی مر گئے اور سارا لشکر تتر بتر ہو کر ناکام و نامراد واپس چلا آیا۔ جس کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب ِ مبارک پر بہت ہی صدمہ گزرا۔
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۷۲۷،پ۹،الاعراف، :۱۷۵)
بلعم بن باعوراء پہاڑ سے اتر کر مردود بارگاہِ الٰہی ہو گیا۔ آخری دم تک اس کی زبان اس کے سینے پر لٹکتی رہی اور وہ بے ایمان ہو کر مر گیا۔ اس واقعہ کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور اے محبوب انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہو گیا۔ اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے اٹھا لیتے مگر وہ تو زمین پکڑ گیا اور اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں۔
بلعم بن باعوراء کیوں ذلیل ہوا؟:۔روایت ہے کہ بعض انبیاء کرام نے خدا تعالیٰ سے دریافت کیا کہ تونے بلعم بن باعوراء کو اتنی نعمتیں عطا فرما کر پھر اس کو کیوں اس قعرِ مذلت میں گرا دیا؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُس نے میری نعمتوں کا کبھی شکر ادا نہیں کیا۔ اگر وہ شکر گزار ہوتا تو میں اس کی کرامتوں کو سلب کر کے اس کو دونوں جہاں میں اس طرح ذلیل و خوار اور غائب و خاسر نہ کرتا۔ (تفسیر روح البیان،ج۳،ص۱۳۹،پ۸،الاعراف :۱۰)
درسِ ہدایت:۔بلعم بن باعوراء کی اس سرگزشت سے چند اسباقِ ہدایت ملتے ہیں:۔
(۱)اس سے اُن عالموں اور لیڈروں کو سبق حاصل کرنا چاہے جو مالداروں یا حکومتوں سے رقمیں لے کر خلافِ شریعت باتیں کرتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے دین و ایمان کا سودا کرتے ہیں۔ دیکھ لو بلعم بن باعوراء کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ یہ کیوں ہوا؟ اس لئے اور صرف اس لئے کہ وہ مال و دولت کے لالچ میں گرفتار ہو گیا اور دانستہ اللہ عزوجل کے نبی پر بددعا کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ تو اس کا اس پر یہ وبال پڑا کہ دنیا و آخرت میں ملعون ہوکر اس طرح مردود مطرود ہو گیا کہ عمر بھر کتے کی طرح لٹکتی ہوئی زبان لئے پھرا اور آخرت میں جہنم کی بھڑکتی اور شعلہ بار آگ کا ایندھن بن گیا۔ لہٰذا ہر مسلمان خصوصاً علماء و مشائخ کو مال و دولت کے حرص اور لالچ کے جال سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہے اور ہرگز کبھی بھی مال کی طمع میں دین کے اندر مداہنت نہیں کرنی چاہے۔ ورنہ خوب سمجھ لو کہ قہرِ الٰہی عزوجل کی تلوار لٹک رہی ہے۔ (والعیاذ باللہ منہ)
(۲)اس سانحہ سے عام مسلمان بھی یہ سبق سیکھیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لشکر جس میں ملائکہ اور مومنین تھے۔ ظاہر ہے کہ اس لشکر کے ناکام ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کیونکہ یہ ایسا روحانی اور ملکوتی لشکر تھا کہ ان کے گھوڑوں کی ٹاپ سے پہاڑ لرزہ براندام ہوجاتے ،مگر صرف ایک بدنصیب کے گناہ کے سبب ایسی نحوست پھیل گئی کہ ملائکہ لشکر سے الگ ہوگئے اور طاعون کے عذاب نے پورے لشکر میں ایسی ابتری پھیلا دی کہ پورا لشکر بکھر گیا۔ اور یہ فوج ظفر موج ناکام و نامراد ہو کر پسپا ہو گئی۔ اس لئے مسلمانوں کو لازم ہے کہ اگر وہ کفار کے مقابلہ میں مظفر و منصور اور فتح یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہر وقت گناہوں اور بدکاریوں کی نحوستوں سے بچتے رہیں ورنہ فرشتوں کی مدد ختم ہوجائے گی۔ اور مسلمانوں کا رعب کفار کے دلوں سے نکل جائے گا اور مسلمانوں کو نہ صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا بلکہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہوجائے گی اور پوری قوم صفحہ ہستی سے حرف ِ غلط کی طرح مٹ جائے گی۔
(نعوذباللہ منہ)