حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو ایک روز اطلاع ملی کہ سپہ سالار کے باورچی خانے کا یومیّہ خرچ ایک ہزار درہم ہے۔ اس خبر سے آپ کو سخت افسوس ہوا۔ اس کی اصلاح کیلئے ذہن بنایا اور اس کو اپنے یہاں مدعو فرمایا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے باورچیوں کو حکم دیا کہ پر تکلف کھانے کے ساتھ ہی جو شریف کا دلیا بھی تیار کیا جائے۔ سپہ سالار جب دعوت پر حاضر ہوا تو خلیفہ نے قصداً کھانا منگوانے میں اس قدر تاخیر فرما دی کہ سپہ سالار بھوک سے بے تاب ہوگیا۔
بالآخِر امیرالمؤمنین نے پہلے جو شریف کا دلیا منگوایا ۔سپہ سالار چونکہ بہت بھوکا تھا اس لئے اس نے جو شریف کادلیا کھانا شروع کر دیا اور جب پر تکلف کھانے آئے اس وقت اس کا پیٹ بھر چکا تھا۔ دانا خلیفہ نے پر تکلف کھانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا، آپ کا کھانا تو اب آیا ہے کھائیے! سپہ سالار نے انکار کیا اور کہا کہ حضور! میرا پیٹ تو دلیا ہی سے بھر چکا ہے۔
امیرالمؤمنین نے فرمایا، سبحٰن اللہ! دلیا بھی کتنا عمدہ کھانا ہے کہ پیٹ بھی بھر دیتا ہے اور ہے بھی اتنا سستا کہ ایک درہم میں دس آدمیوں کوسیر کر دے ! یہ کہہ کر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا، جب آپ دلیا سے بھی گزارہ کر سکتے ہیں تو آخر روزانہ ایک ہزار درہم اپنے کھانے پر کیوں خرچ کرتے ہیں؟ سپہ سالار صاحب! خدا سے ڈریئے اور اپنے آپ کو زیادہ خرچ کرنے والوں میں داخل نہ کیجئے۔
اپنے باورچی خانے میں جو رقم بے تحاشا صرف کرتے ہیں وہ رضائے الہٰی عزوجل کیلئے بھوکوں، حاجت مندوں اور غریبوں کو دے دیجئے۔ متقی خلیفہ کی نصیحت نے سپہ سالارِ لشکرکے دل پر گہرا اثر ڈالا اور اس نے عہد کر لیا کہ آئندہ کھانے میں سادگی اپناؤں گا اور کم خرچ سے کام چلاؤں گا۔(1)
بے برکتی کا سبب فضول خرچیاں
عزیز ساتھیو! ہم نفس کو جس قدر لذیذ غذائیں کھلائیں گے اسی قدر وہ بہتر سے بہتر طلب کرتا رہے گا ۔ آج ہماری اکثریت بے برکتی کی شاکی ہے نیز تنگدستی اور پھر اوپر سے کمر توڑ مہنگائی کا رونا روتی ہے اور آج تقریباً ہر ایک کہتا سنائی دیتا ہے “پورا نہیں ہوتا !” یقین مانئے، مہنگائی، بے برکتی اور تنگدستی کا فی زمانہ ایک بہت بڑا سبب غیر ضروری اخراجات بھی ہیں۔ ظاہر ہے جب فضول خرچیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے نیز اعلیٰ کھانوں ، عمدہ مکانوں ، پھر ان کے اندر سجاوٹوں کے بیش قیمت سامانوں، مہنگے مہنگے فینسی لباسوں سے دل لگائے رہیں گے، تو ان کاموں کیلئے خطیر رقموں کی ضرورت رہے گی اور پھر “بے برکتی ” اور “پورا نہیں ہوتا ” کی راگنیاں بھی جاری ہی رہیں گی۔
حضرت امام جعفرِ صادق علیہ رحمۃ الرازِق کا فرمان ھدایت نشان ہے، جس نے اپنا مال فضول خرچیوں میں کھو دیا، اب کہتا ہے اے ربّ! مجھے اور دے۔ اللہ(2)فرماتا ہے، کیا میں نے تجھے میانہ روی کا حکم نہ دیا تھا ؟ کیا تو نے میرا(3)ارشاد نہ سنا تھا؟
ترجمہ: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(4) (5)
بہرحال اگر قناعت اور سادگی کے ساتھ سستے کھانوں اورسادہ لباسوں کو اپنا لیا جائے ۔ فقط حسب ضرورت مکانات رکھے جائیں، بے جا سجاوٹوں اور نمائشی دعوتوں کے معاملے میں خود پر پابندی ڈالی جائے تو خود بخود مہنگائی کاخاتمہ ہو اور غربت رخصت ہوجائے۔ مگر نفس امارہ کی غلامی کا کیا علاج؟
تین افراد کی دعا قبول نہیں
حضورِ انور ﷺ فرماتے ہیں، تین شخص ہیں کہ تیرا رب عزوجل ان کی دعا قبول نہیں کرتا
- ایک وہ کہ ویرانے مکان میں اترے
دوسرا وہ مسافر کہ سر راہ مقام (6)کرے، یعنی سڑک سے بچ کر نہ ٹھہرے بلکہ خاص راستے ہی پر نزول کرے
تیسرا وہ جس نے خود اپنا جانور چھوڑ دیا، اب خدا سے دعا کرتا ہے کہ اسے روک دے۔ (7)
ظاہر اس سے مراد یہی ہے کہ اس خاص مادّے میں ان کی دعا نہ سنی جائے گی نہ یہ کہ جو ایسا کرے مطلقاً اس کی کوئی دعا کسی امر(8)میں قبول نہ ہو اور ان امور میں عدم قبول(9)کا سبب ظاہر کہ یہ کام خود اپنے ہاتھوں کے کئے ہیں۔ لہٰذا ویرانے مکان میں اترنے والا اس کی مضرتوں(10)سے آگاہ ہے، پھر اگر وہاں چوری ہو یا کوئی لوٹ لے یا جن ایذاء پہنچائیں، تو یہ باتیں خود اس کی قبول کی ہوئی ہیں، اب کیوں ان کے رفع (11)کی دعا کرتا ہے۔
یونہی جب راستے پر قیام کیا، تو ہر قسم کے لوگ گزر یں گے، اب اگر چوری ہوجائے یا ہاتھی،گھوڑے کے پاؤں سے کچھ نقصان، رات کو سانپ وغیرہ سے ایذاء پہنچے ، اس کا اپنا کیا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں،”شب کو سر راہ(12)نہ اترو کہ اللہ اپنی مخلوق سے جسے چاہے راہ پر چلنے کی اجازت دیتا ہے۔ ” یونہی جانور کو خود چھوڑ کر اس کے حبس(13)کی دعا تو ظاہراً حماقت ہے، کیا واحد قہار جلّ جلا لہ کوآزماتا یا معاذ اللہ اسے اپنا محکوم ٹھہراتا ہے! حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام سے کسی نے کہا، اگر خدا کی قدرت پر بھروسہ ہے، اپنے آپ کو اس پہاڑ سے نیچے گرا دو۔ فرمایا،” میں اپنے ربّ عزوجل کو آزماتا نہیں۔(14)
عزیز ساتھیو! فارسی مقولہ ہے،
یعنی اپنے ہاتھوں سے مصیبت اوڑھ لینے والوں کا کوئی علاج نہیں۔
مثلاً کوئی اپنا سر دیوار میں مارتا جائے اور روتا چلّاتا جائے کہ ہائے! میرا سر پھٹ گیا! مجھے بچاؤ!! تو ظاہر ہے اس احمق سے یہی کہا جائے گا کہ اپنا سر دیوار میں مارنا ترک کر دے تو نہیں پھٹے گا۔ اسی طرح بہت سارے نادان انسان جو کچھ ہاتھ میں آتا ہے ہڑپ کر جاتے ، خوب ٹھانس ٹھانس کر کھاتے اورپھر موٹا پے، نکلے ہوئے پیٹ، قبض اور بد ہضمی کی دوائیں ڈھونڈتے پھرتے اور ڈاکٹر حکیموں پر خوب رقمیں خرچ کرتے ہیں! مگر دواؤں سے علاج نہیں ہو پاتا،کیوں؟ اس لئے کہ ان امراض کا علاج ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
ڈٹ کر کھانا چھوڑ دیں، جب تک خوب بھوک نہ لگے اس وقت تک نہ کھائیں، حدیث پاک میں بتائے ہوئے طریقے کے مطابِق بھوک سے کم کھائیں، پِزّوں پراٹھوں ، دودھ کی بالائی، اورمکھنوں، کیک ، پیسڑیوں، بن کبابوں ، برگروں، سیخ کبابوں، سموسوں، پکوڑوں اور دیگر تلی ہوئی چیزوں نیز چکناہٹ، میدہ اور مٹھاس والی چیزوں کو کم سے کم استعمال میں لائیں۔ آئسکریموں ٹھنڈے شربتوں اور ٹھنڈی بوتلوں سے خود کو بچائیں نیز چائے نوشی بھی زیادہ نہ فرمائیں(15)اگر پان سگرٹوں، خوشبودار چھالیوں، گٹکوں، مین پوڑیوں، اور پان پراگوں وغیرہ کی لت ہے تو ان سے پیچھا چھڑائیں۔ ان شاء اللہ عزوجل وزن کم، پیٹ اندر اور ہاضمہ درست نیز بہت ساری بیماریوں سے بغیر ڈاکٹری علاج کے نجات مل جائے گی۔
موٹاپے کا ایک سبب
میرے ان مشوروں پر زیادہ نہیں توفقط 40 دن سختی سے عمل کر کے دیکھ لیجئے ان شاء اللہ عزوجل اپنی صحت میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس فرمائیں گے۔ پہلے کسی لیبارٹری میں ” لپڈ پروفائل اور شوگر “ٹیسٹ کروا کر اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بعد اس اچھی نیت کے ساتھ پرہیز ی شروع کر دیجئے۔ یاد رکھئے ! کھانے کے بعد پانی پینے سے بھی بدن پھولتا، وزن بڑھتا اور موٹاپا آتا ہے۔
لہٰذا کھانے کے بعد کم سے کم پانی پئیں۔ ہاں کھانے کے دوران تھوڑا تھوڑا پانی پیتے رہنا مفید ہے۔ بہرحال کھانے کے بعد خوب پانی غٹ غٹانے کے عادی کا بدن اگر پھول جائے تو اس کا علاج وہ دوا سے کرنے کے بجائے اپنی عادت کی اصلاح سے کریگا تو ہی ہو سکے گا۔
نا سمجھ بیمار کو امرت بھی زہر آمیز ہے
سچ یہی ہے سو دوا کی اک دوا پرہیز ہے
خطرے میں ڈالنے والی 15باتوں كی مثالیں:
اپنے ہاتھوں خود کوخطرات میں ڈال کر پھر انہیں خطرات سے اپنی حفاظت کے لئے کی جانے والی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ “احسن الوعاء لاٰداب الدعاء” میں خود کو اپنے ہاتھوں سے مصیبت میں ڈالنے کے ضمن میں بہت پیاری مثالیں دی گئی ہیں۔ مثلاً
- جو بغیر کسی سخت مجبوری کے رات کو ایسے وقت گھر سے باہر نکلے کہ لوگ سو گئے ہوں، پاؤں کی پہچل راستوں سے موقوف ہوگئی ہو۔ صحیح حدیث میں اس سے ممانعت فرمائی کہ اس وقت بلائیں منتشر ہوتی ہیں(16)یا
- رات کو دروازہ کھلا چھوڑ دے یا بغیر بسم اللہ کہے بند کر ے کہ شیطان اسے کھول سکتا ہے اور جب بسم اللہ کہہ کر دہنا(17)پاؤں مکان میں رکھے تو شیطان کہ ساتھ آیا تھا باہر رہ جاتا ہے اور جب بسم اللہ کہہ کر دروازہ بند کرے تو اس کے کھولنے پر قدرت نہیں پاتا (18)یا
- کھانے ، پانی کے برتن بسم اللہ کہہ کر نہ ڈھانکے کہ بلائیں اترتی اور خراب کر دیتی ہیں پھر وہ طعام و مشروبات بیماریاں لاتے ہیں(19)یا
- بچے کو مغرب کے وقت گھر سے باہر نکالے کہ اس وقت شیاطین منتشر ہوتے ہیں(20)یا
- کھانے کے بعد بے ہاتھ دھوئے سو رہے کہ شیطان چاٹتا اور معاذ اللہ برص(21)کا باعث ہوتا ہے یا
- غسل خانے میں پیشاب کرے کہ اس سے وسوسہ پیدا ہوتا ہے یا
- چھجے کے قریب سوئے اور چھت پر روک(22) نہ ہو کہ گر پڑنے کا احتمال(23) ہے یا
- کھانا بغیر بسم اللہ پڑھے کھائے کہ شیطان ساتھ کھاتا اورجو طعام چند مسلمانوں کو بس کرتا(24)ایک ہی کے کھانے میں فنا(25) ہو جاتا ہے یا
- زمین کے سوراخوں میں پیشاب کرے کہ کبھی سانپ وغیرہ جانوروں کا گھر یا جن کا مکان ہوتا اور انسان ایذا پاتا ہے یا
- اپنی ، خواہ اپنے دوست کی کوئی چیز پسند آئے تو اس پردفع نظر کی دعا :اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَیْہِ وَ لَا تَضُرَّہٗ مَاشَاءَ اللہُ لَا قُوَّ ۃَ اِلا بِاللہ
- (یعنی اے اللہ عزوجل! اس پر برکت نازل فرما اور اسے نقصان نہ پہنچے، جو کچھ اللہ پاک نے چاہا وہی تو ہوا، اللہ پاک کی تائید کے بغیر نیکی پر کچھ قدرت نہیں)یہ نہ پڑھے کہ نظر حق ہے، مرد کو قبر اور اونٹ کو دیگ میں داخل کر دیتی ہے۔ دعا یاد نہ ہو تو ما شا ء اللہ یا بارک اللہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ اگر کسی پسندیدہ چیز کو دیکھ کر ما شا ء اللہ یا بارک اللہ کہہ دے تو نظر نہیں لگتی اگر ان کلمات (26) کے بغیر ہی تعجب سے دیکھے اور تعجب کے الفاظ بولے تو نظر لگ جاتی ہے(27) یا
- تنہا سفر کرے کہ فساق اِنس و جنّ سے مضرَّ ت پہنچتی(28)ہے اور ہر کام میں دقت پڑتی ہے یا
- کھڑے کھڑے پانی پیا کرے کہ درد جگر کا مورِث(29)ہے(30)یا
- بیت الخلاء میں بِغیر بسم اللہ کہے(31)جائے کہ خبائث(32)سے مضرّت(33)کا اندیشہ ہے یا
- فاسقوں، فاجروں، بد وضعوں، بد مذہبوں کے پاس نشست و برخاست کرے کہ اگر بالفرض صحبت بد کے اثر سے بچا تو متّہم(34)ضرور ہو جائے گا یا
- لوگوں کے راستوں میں خواہ ان کی نشست و برخاست کی جگہ پیشاب کرے کہ آپ ہی گالیاں کھائے گا۔(35)
حوالہ جات
1↑ | مغنی الواعظین ص ۴۹۱ |
---|---|
2↑ | ایسے شخص سے |
3↑ | یہ |
4↑ | پ۱۹ فرقان ۶۷ |
5↑ | ملخصاً احسن الوعاء لاداب الدعاء ص ۷۵ |
6↑ | یعنی پڑاؤ |
7↑ | احسن الوعاء لاداب الدعاء ص ۷۳ |
8↑ | یعنی معاملے |
9↑ | یعنی قبول نہ ہونے |
10↑ | یعنی نقصانات |
11↑ | یعنی دور ہونے |
12↑ | یعنی راستے میں |
13↑ | یعنی قابو میں آنے |
14↑ | احسن الوعاء لاداب الدعاء ص ۷۳، ۷۴ |
15↑ | ضرورتاً دن رات میں دو یا تین مرتبہ آدھے آدھے کپ چائے سے کام چلائیں |
16↑ | تو گویا رات تاخیر سے سنسان راستے سے گزرے اور اس کو ڈاکو لپٹ جائے یا بھوت چمٹ جائے تو اب اپنے آپ ہی کو ملامت کرے کہ خود کو کیوں خطرے میں ڈالا! |
17↑ | یعنی سیدھا |
18↑ | یہاں بھی اگر بے احتیاطی کی گئی اور شیطان نے گھر میں گھس کر نقصان پہنچایا تو خود اپنے ہی قصور کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اب اس معاملے میں دعا کیسے قبول ہو؟ |
19↑ | کھانا وغیرہ موجود ہوتے ہوئے برتن کھلا ہو تو ناپاک جنات استعمال کرتے ہیں لہٰذا بے احتیاطیاں کرنے والے کی یہاں بھی دعاء قبول نہیں ہوگی کہ آسیب اور امراض سے حفاظت کا بہترین نسخہ بتادیا گیا ہے |
20↑ | اگر مغرب و عشاء کے درمیا ن بچے کو باہر نکالا اور کسی جن نے پکڑ لیا تو آپ کا اپنا قصور ہے کہ کیوں نکالا؟ |
21↑ | کوڑھ |
22↑ | یعنی منڈھیر |
23↑ | امکان |
24↑ | یعنی کافی ہوتا وہ |
25↑ | ختم |
26↑ | یعنی ما شاء اللہ یا بارک اللہ |
27↑ | مراٰۃ ج۶ ص ۲۴۴ |
28↑ | یعنی نقصان پہنچتا |
29↑ | باعث |
30↑ | آب زم زم اور وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے کھڑے پینا مستحب ہے |
31↑ | یا بغیر دعاء پڑھے |
32↑ | یعنی ناپاک جنّات |
33↑ | نقصان پہنچنے |
34↑ | بدنام |
35↑ | ملخصاً احسن الوعاء لاداب الدعاء ص ۷۶، ۷۷ |