حرام آمدنی والے کی دعوت قبول کرکے کھانا پینا شرعاً منع ہے۔ ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ کرنا بہتر ہے تاکہ وہ حرام کی نحوست سے توبہ کرے اور حلال ذریعہ اختیار کرے۔
حرام اور حلال آمدنی کا امتزاج
اکثر صورتوں میں کسی شخص کی آمدنی مکمل حرام نہیں ہوتی بلکہ اس میں حلال آمدنی بھی شامل ہوتی ہے۔
- اگر کسی شخص کی آمدنی حرام و حلال دونوں پر مشتمل ہو تو اس کے یہاں کھانے پینے سے اجتناب بہتر ہے، خاص طور پر جب حرام آمدنی غالب ہو۔
- لیکن اس کے ہاں کھانا مطلقاً حرام نہیں ہوگا، جب تک یہ یقین نہ ہو کہ جو چیز سامنے پیش کی گئی ہے وہ بعینہ حرام کمائی سے خریدی گئی ہو۔
کون سی صورت میں کھانا حرام ہوگا؟
دعوت میں پیش کی گئی کسی خاص چیز کا کھانا درج ذیل صورتوں میں حرام ہوگا:
- یقین ہو کہ یہ چیز بعینہ رشوت، چوری، سود یا جوئے سے حاصل کی گئی ہے۔
- حرام رقم سے براہِ راست عقد و نقد ہوا ہو، یعنی چیز دکھا کر کہا ہو: “یہ مال لو اور اس کے بدلے یہ کھانے کی چیز دو”۔
- پہلے حرام مال دے کر یہ کہا گیا ہو: “اس کے بدلے کھانے کی فلاں چیز دے دو”۔
اگر یقینی علم نہ ہو؟
اگر ایسی کوئی صراحت یا یقین نہ ہو تو دعوت قبول کرنا حرام نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی احتیاطاً اجتناب بہتر ہے تاکہ دل و دماغ پر حرام کی نحوست نہ پڑے۔
خلاصہ
حرام کمائی والے شخص کی دعوت میں:
- واضح علم ہو کہ کھانے کی چیز حرام مال سے لی گئی ہے تو اس کا کھانا حرام ہے۔
- حرام آمدنی غالب ہو تو دعوت سے اجتناب بہتر ہے۔
- یقین نہ ہو تو دعوت قبول کرنا جائز ہے، مگر پرہیز افضل ہے۔