ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنے قول پورے کرو۔
(پ۶،المائدہ:۱)
مکی مدنی سلطان رحمتِ عالمیان صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا :”جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے ،اس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل ۔”
(بخاری ، رقم الحدیث ۱۸۷۰،ج۱،ص۶۱۶)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:”چار علامتیں جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان میں سے ایک علامت ہوئی تو اس شخص میں نفاق کی ایک علامت پائی گئی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے ،
- جب امانت دی جائے تو خیانت کرے ،
- جب بات کرے تو جھوٹ بولے ،
- جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے،
- جب جھگڑا کرے تو گالی بکے ۔
(بخاری ،ج۱،ص ۱۷، رقم ۳۴)
شرعی مسئلہ:
اگر کسی سے کوئی کام کرنے کا وعدہ کیا اور وعدہ کرتے وقت نیت میں فریب نہ ہو پھر بعد میں اس کام کو کرنے میں کوئی حرج پایا جائے تو اس وجہ سے اس کام کو نہ کرنا وعدہ خلافی نہیں کہلائے گا ، حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ،”وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی بھی ہو بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔”
(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ،ج۱۰، حصہ اول ، ص ۸۹)
صدرا لشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”وعدہ کیا مگر اس کو پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت تھی اس وجہ سے پورا نہیں کیا تو اس کو وعدہ خلافی نہیں کہا جائے گا اور وعدہ خلافی کا جو گناہ ہے اس صورت میں نہیں ہوگا اگرچہ وعدہ کرتے وقت اس نے استثناء نہ کیا ہو کہ یہاں شریعت کی طرف سے استثناء موجود ہے اس کو زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں مثلاً
وعدہ کیا تھا کہ” میں فلاں جگہ پر آؤں گا اور وہاں بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں گا ۔”مگر جب وہاں گیا تو دیکھتا ہے کہ ناچ رنگ اور شراب نوشی وغیرہ میں لوگ مصروف ہیں ،(لہذا!)وہاں سے چلا آیا تو یہ وعدہ خلافی نہیں ہے ، یا اس کا انتظار کرنے کا وعدہ کیا اور انتظار کر رہا تھا کہ نماز کا وقت آگیا ،یہ چلا آیا (تو یہ)وعدہ کے خلاف نہیں ہوا۔
(بہار شریعت،حصہ ۱۶، مسئلہ نمبر ۴،ص۷۰۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حوالے سے بھی اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ عليہ وسلم