صاحب نصاب کون ہوتا ہے؟
صاحب نصاب وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں:
- ساڑھے باون تولہ چاندی (200 درہم)
- یا ساڑھے سات تولہ سونا (20 دینار)
- یا ان دونوں کا مجموعہ ہو، اور اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچتی ہو
- یا ایسی اشیاء ہوں جو حاجتِ اصلیہ سے زائد ہوں اور ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو
حاجتِ اصلیہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی انسان کو روزمرہ زندگی میں لازمی ضرورت ہوتی ہے، جیسے:
- رہائش
- کپڑے
- سواری
- استعمال کا ضروری سامان
اگر نقد رقم نہ ہو؟
ایسا شخص جس پر قربانی واجب ہے لیکن اس کے پاس فوری نقد رقم موجود نہیں (یعنی سونا، چاندی یا دیگر مال موجود ہے مگر کیش نہیں)، تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ قرض لے کر بھی قربانی کرے یا کوئی چیز بیچ کر قربانی کا انتظام کرے۔
فقہی حوالہ
وقار الفتاوی میں درج ہے:
’’جو صاحب نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے، قربانی کرنے کے لئے اپنا سونا چاندی فروخت کرے یا قرض لے کر کرے، دونوں صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل کرے۔‘‘
خلاصہ
اگر کوئی شخص شرعی اعتبار سے صاحب نصاب ہے تو اس پر قربانی واجب ہے، چاہے اس کے پاس کیش نہ ہو۔ ایسی صورت میں قرض لینا یا سونا/سامان بیچنا جائز بلکہ لازم ہے تاکہ قربانی کی ادائیگی ہو سکے۔ دینِ اسلام میں قربانی جیسی عبادت کی ادائیگی کے لیے معمولی قربانی (مثلاً قرض وغیرہ) کو گوارا کیا گیا ہے تاکہ فرض یا واجب عبادات میں کوتاہی نہ ہو۔
حوالہ جات
1↑ | وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 470، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی |
---|