عقیقے کے حصے کی تعداد
البتہ بہتر اور افضل یہ ہے کہ لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ رکھا جائے۔ تاہم اگر کسی نے لڑکے کے لیے بھی صرف ایک حصہ رکھا، تب بھی عقیقہ ادا ہو جائے گا اور شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
عقیقہ کے گوشت کی تقسیم
جیسے قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا مستحب ہے، ویسے ہی عقیقے کے گوشت کو بھی تین حصوں میں تقسیم کرنا مستحب ہے۔ عقیقے کے گوشت سے بچے کے والدین، دادا دادی، نانا نانی، رشتہ دار، امیر، غریب، سب کھا سکتے ہیں۔
عقیقے کا وقت
عقیقے کا افضل وقت پیدائش کے ساتویں دن ہے۔ اگر ساتویں دن نہ ہو سکے تو بعد میں زندگی میں جب چاہیں کر سکتے ہیں، سنت ادا ہو جائے گی۔ ساتویں دن کا تعین یوں کریں: جس دن بچہ پیدا ہوا، اس دن سے ایک دن پہلے ساتواں دن شمار کریں۔ مثال کے طور پر:
- اگر بچہ جمعہ کو پیدا ہوا تو اگلے ہفتے جمعرات کو ساتواں دن ہوگا۔
- اگر بچہ ہفتہ کو پیدا ہوا تو اگلے جمعہ کو ساتواں دن شمار ہوگا۔
البتہ فوت ہو جانے کے بعد عقیقہ نہیں ہو سکتا کیونکہ عقیقہ شکرانے کا عمل ہے اور یہ زندہ کے لیے ہی معتبر ہے۔
فقہی حوالہ
اس بارے میں حاشیۃ الطحطاوی میں لکھا ہے:
ترجمہ: اگر کچھ لوگوں نے (قربانی کے جانور میں) قربانی کی نیت کی ہو یا کسی اور نیکی (قربت) کی نیت کی ہو تو وہ نیت ان کے لیے کافی ہو جائے گی، چاہے وہ قربت واجب ہو یا نفل، یا بعض پر واجب ہو بعض پر نہ ہو، اور چاہے نیت ایک جیسی ہو یا مختلف ہو۔ اسی طرح اگر ان میں سے بعض نے پہلے پیدا ہونے والے بچے کے عقیقے کی نیت کی ہو (تو بھی جائز ہے)۔ (1)
خلاصہ
قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھنا شرعاً جائز ہے۔ چاہے قربانی اور عقیقہ دونوں ایک ہی جانور میں ہوں، نیت درست ہو تو دونوں عبادات کا ثواب ملے گا۔ شریعت نے اس میں سہولت دی ہے، لہٰذا جو شخص استطاعت رکھتا ہو وہ اس عمل کو انجام دے سکتا ہے۔
حوالہ جات
1↑ | حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 4، ص 166، کتاب الاضحیہ، مطبوعہ کوئٹہ |
---|