آپ نے ادارے کو زکات دینے کے حکم کے بارے میں پوچھا ہے۔ اس سلسلے میں ایک تفصیلی شرعی حکم موجود ہے، جو ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔
کسی ادارے کو زکات دینے کا حکم
اللہ پاک نے قرآن مجید میں بارہا مقامات پر “واٰتواالزکوۃ” فرما کر اموال سے زکات ادا کرنے کو فرض کیا ہے۔ زکات مسلمانوں میں سے مالداروں سے لے کر غرباء و مساکین کو دی جاتی ہے۔
قرآن مجید نے زکات و فطرہ (صدقاتِ واجبہ) کے مستحقین کو یوں بیان فرمایا:
ترجمہ: “زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے فقراء اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو۔”
زکات ادا کرنے کا مقصد فقراء و محتاجوں کی امداد کرنا، انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنا، اور انہیں بھی خوشیاں دینا ہے۔
زکات کی ادائیگی کے لیے تملیک کی شرط
زکات کی ادائیگی کے لیے تملیک (مالک بنانا) شرط ہے۔ یعنی زکات مستحقِ زکات کی ملکیت میں دے دی جائے تاکہ وہ اس میں جو چاہے تصرف کر سکے۔ اب یہ مستحقِ زکات کی ملک کرنا، چاہے خود بندہ جا کر دے یا کسی کو وکیل بنا لے کہ یہ مستحق تک پہنچا دے، دونوں صورتیں جائز ہیں۔
ادارے کو براہ راست زکات دینے کا حکم
مذکورہ وضاحت کو مد نظر رکھتے ہوئے ادارے کو براہ راست زکات دینا درست نہیں ہو گا، کیونکہ ادارہ مستحقِ زکات نہیں ہے اور تملیک نہیں پائی گئی۔ تو ہسپتال، فلاحی ادارے، وغیرہ ایسے ادارے جو مستحقینِ زکات تک زکات نہیں پہنچاتے بلکہ خود دوسرے کاموں میں استعمال کرتے ہیں، تو ایسے ادارے کو زکات دینے سے زکات ادا نہیں ہو گی۔
ایسے ادارے جو زکات مستحقین تک پہنچاتے ہیں
ایسے ادارے جن کا کام ہی یہ ہو کہ وہ زکات و فطرہ اکٹھا کرتے ہوں تاکہ انہیں مستحقینِ زکات تک پہنچایا جائے اور وہ واقعی میں شرعی احکامات کی پابندی کے ساتھ مستحقینِ زکات تک پہنچاتے بھی ہوں، تو ایسے ادارے کو زکات دینے میں حرج نہیں ہو گا، کیونکہ آپ اس کو اپنا وکیل بنا رہے ہیں کہ وہ آپ کی زکات کا کسی مستحقِ زکات کو مالک بنا دے۔ اس صورت میں اگر زکات مستحق تک پہنچ جاتی ہے تو زکات ادا ہو جائے گی۔