عقیقہ کے لیے صرف بکری یا دنبہ ہی نہیں بلکہ بڑے جانور جیسے گائے یا اونٹ کو بھی ذبح کیا جا سکتا ہے۔ فقہی اعتبار سے اس میں بھی قربانی کی طرح سات افراد تک شریک ہو سکتے ہیں۔
بڑے جانور سے عقیقہ کرنا کیسا؟
نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے:
مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ فَلْيُعِقَّ عَنْهُ مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو وہ اس کا عقیقہ اونٹ، گائے یا بکری سے کرے۔ (1)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عقیقہ میں ان تمام جانوروں کا استعمال جائز ہے جو قربانی میں جائز ہوتے ہیں۔
فقہی مذاہب کا اتفاق
احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کے راجح قول کے مطابق بھی عقیقے میں بڑے جانور کا استعمال جائز ہے۔ اس بارے میں موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ذکر ہے:
يجزئ في العقيقة الجنس الذي يجزئ في الأضحية، وهو الأنعام من إبل وبقر وغنم، ولا يجزئ غيرها، وهذا متفق عليه بين الحنفية، والشافعية والحنابلة، وهو أرجح القولين عند المالكيةترجمہ: عقیقے میں وہی جانور کافی ہوں گے جو قربانی میں کفایت کرتے ہیں، یعنی اونٹ، گائے اور بکری۔ یہ احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کے نزدیک راجح قول ہے۔ (2)
اہم شرائط
- اگر بڑا جانور ذبح کیا جائے تو اس میں سات حصے کیے جا سکتے ہیں، جیسے قربانی میں ہوتے ہیں۔
- تمام شریک افراد کی نیت عقیقہ کی ہو یا کسی کی طرف سے ہو تو بھی درست ہے۔
- عقیقہ کے جانور میں وہی شرائط ہوں گی جو قربانی کے جانور میں معتبر ہیں: عمر، صحت، عیب سے پاک ہونا وغیرہ۔
نتیجہ
عقیقہ میں بڑے جانور (گائے، اونٹ) کا ذبح کرنا شرعی طور پر درست، مسنون اور جائز عمل ہے۔ علماء کرام اور تمام ائمہ مذاہب کا اس پر اتفاق ہے کہ قربانی کے قابل جانور عقیقے میں بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔