حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں امیرالمؤمنِین حضرت مولائے کائنات، علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی خدمت سراپا عظمت میں دارالامارۃ کوفہ میں حاضر ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے جَو شریف کی روٹی اور دودھ کا ایک پِیالہ رکھا ہوا تھا، روٹی خشک اور اس قدر سخت تھی کہ کبھی اپنے ہاتھوں سے اور کبھی گھٹنے پر رکھ کر توڑتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے آپ رضی اللہ عنہ کی کنیز فضہ رضی اللہ عنہا سے کہا، آپ کو ان پر ترس نہیں آتا؟ دیکھئے تو سہی روٹی پر بھوسی لگی ہوئی ہے ان کیلئے جَو شریف چھان کر نرم روٹی پکایا کریں۔ تا کہ توڑنے میں مشقت نہ ہو۔
عہد
فضہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا، امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ان کے لئے کبھی بھی جَو شریف چھان کر نہ پکایا جائے ۔ اتنے میں امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، اے ابن غفلہ! آپ اس کنیز سے کیا فرما رہے ہیں؟ میں نے جو کچھ کہا تھا عرض کر دیا اور التجاء کی، یاامیرالمؤمنین! آپ اپنی جان پر رحم فرمایئے اور اتنی مشقّت نہ اٹھایئے۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اے ابن غفلہ! دو عالم کے مالک و مختار، مکی مدنی سرکار، محبوب پرورد گارﷺ اور آپ کے اہل و عیال نے کبھی تین دن برابر گیہوں کی روٹی شکم سیر ہو کر نہیں کھائی اور نہ ہی کبھی آپ ﷺ کے لئے آٹا چھان کر پکایا گیا۔
ایک دفعہ مدینہ منوّرہ میں بھوک نے بہت ستایا تو میں مزدوری کے لئے نکلا، دیکھا کہ ایک عورت مٹی کے ڈھیلوں کو جمع کر کے ان کو بھگونا چاہتی تھی میں نے اس سے فی ڈول ایک کھجور اجرت طے کی اور سولہ ڈول ڈال کر اس مٹی کو بھگو دیا یہاں تک کہ میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے پھر وہ کھجوریں لے کر میں حضورِ اکرم ﷺ کے حضور حاضر ہوا اور سارا واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے بھی ان میں سے کچھ کھجوریں تناول فرمائِیں۔(1)
دل کو نرم کرنے کا نسخہ
عزیز ساتھیو! امیرالمؤمنین حضرت مولائے کائنات، علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ کی سادگی پر ہماری جان قربان ہو۔ اتنی اتنی مشقتیں برداشت کرنے کے باوجود زبان پر کبھی حرف شکایت نہ لاتے ۔ غذا کے ساتھ ساتھ آپ کا لباس بھی انتہائی سادہ ہوا کرتا تھا۔ ایک بار آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی گئی، آپ اپنی قمیص میں پیوند کیوں لگاتے ہیں؟ فرمایا،
یعنی اس سے دل نرم رہتا ہے اور مومن اس کی پیروی کرتا ہے۔ (یعنی مومن کا دل نرم ہی ہونا چاہئے)(2)
خوش ذائقہ فالودہ
امیرالمؤمنین حضرت مولائے کائنات، علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ کی خدمت با برکت میں ایک بار خوش ذائقہ فالودہ پیش کیا گیا۔ فرمایا، اس کی خوشبو ، رنگ اور ذائقہ کتنا اچھا ہے! میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اپنے نفس کو ایسی چیز کاعادی بناؤں جس کی اسے عادت نہیں۔(3)
جیسی نعمت ویسا حساب
عزیز ساتھیو! امیرالمؤمنین حضرت مولائے کائنات، علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ کی نفس کشی مرحبا ! کاش ! ہم بھی سخت گَرمی میں نفس کے مطالبہ پر آ ئسکریم یا فالودہ کھاتے اور ٹھنڈے مشروبات غٹ غٹاتے وقت امیرالمؤمنین حضرت مولائے کائنات، علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ کی اس ایمان افروز حکایت کو بھی کبھی کبھی یاد کر لیا کریں۔ یاد رکھئے! نفس کو جس قدر آسائشوں کی عادت ڈالی جائے وہ اسی قدر ڈھیٹ اور عیش پرست ہو جاتا ہے۔
دیکھئے ! جب پنکھا اِیجاد نہیں ہوا تھا اس وقت بھی لوگ گزارہ کر ہی لیتے تھے اور آج بہت سوں کی ائیر کنڈیشنڈ روم میں سونے کی عادت پڑ گئی ہے ان کو اب گرمیوں میں .A.C کے بغیر نیند آنا دشوار ہوتا ہو گا۔ اسی طرح جو عمدہ و لذیذ اور گرما گرم کھانوں کے عادی ہیں، سادہ کھانا دیکھ کر ان کا ” موڈ آف ” ہو جاتا ہو گا۔ بلکہ کبھی اتفاق سے گھر میں ان کی مرضی کے خلاف کھانا پیش کیا جاتا ہو گا تو بک بک کرتے، لڑتے جھگڑتے ، اپنے بچوں کی ماں بلکہ خود اپنی ماں سے معاذاللہ الجھ پڑتے اور یوں دل آزاریوں وغیرہ کے کبیرہ گناہوں میں جا پڑتے ہوں گے۔
مشورہ
اگر کبھی آپ نے اس طرح کی خطا کی ہے تو میرا مشورہ ہے کہ توبہ بھی کیجئے اور جس جس کی دل آزاری کی ہے اس سے معافی تلافی بھی فرما لیجئے۔ ورنہ اللہ عزوجل کی ناراضگی کی صورت میں مرنے کے بعد سخت پچھتاوا ہو گا۔ یاد رکھئے ! دنیا میں نعمت جتنی عمدہ ہو گی بروز قیامت اس کا حساب بھی اتنا ہی زِیادہ ہو گا۔ حساب آخِرت کے معاملے میں عمدگی کا معیار اپنی اپنی پسند کے اعتبار سے ہو گا۔ مثلاً جو چاول کے بجائے روٹی زیادہ پسند کرتا ہے اس کیلئے چاول کے مقابلے میں روٹی بڑی نعمت ہے اور اسی مناسبت سے اس سے روٹی کا حساب زیادہ اور جو چاول کا شوقین ہو گا اس کیلئے روٹی کے مقابلے میں چاول کا حساب زیادہ ۔ و علٰی ھٰذ القیاس (یعنی اور اسی پر ہر چیز کو قیاس کر لیجئے)
اللہ تبارک و پارہ ۳۰ سورۃ التکاثر کی آخِری آیت کریمہ میں ارشاد فرماتا ہے:۔
ترجمہ: پھر بے شک ضرور اس دن تم سے نعمتوں سے پرسش ہو گی۔ (4)
نعمت کی اقسام اور ان کے بارے میں قیامت کے سوالات
یہ سوال ہر نعمت کے متعلق ہو گا، جسمانی یا روحانی ، ضرورت کی ہو یا عیش و راحت کی، ٹھنڈے پانی، درخت کے سائے، راحت کی نیند کا بھی۔ جیسے کہ حدیث شریف میں ہے اور” نعیم”کے اطلاق سے (5) معلوم ہوتا ہے۔ بغیر استحقاق جو عطا ہو وہ”نعمت” ہے، رب عزوجل کا ہر عطیہ نعمت ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی ۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
- کسبی
- وہبی۔
جو نعمتیں ہماری کمائی سے ملیں وہ کسبی ہیں، جیسے دولت سلطنت وغیرہ ۔جو محض رب عزوجل کی عطا سے ہوں ، وہ وہبی جیسے ہمارے اعضاء ، چاند سورج ، وغیرہ ۔ کسبی نعمت کے متعلق تین سوال ہوں گے
- کہاں سے حاصل کیں؟
- کہاں خرچ کیں؟
- وہبی نعمتوں کے متعلق اۤخری دو سوال ہوں گے۔(6)
آخرت میں سو حصے کمی
پزّوں، پراٹھوں، کبابوں، سموسوں، گرما گرم پکوڑوں، آئس کریموں ، ٹھنڈی ٹھنڈی بوتلوں، خوش ذائقہ فالودوں، میٹھے میٹھے مزیدار شربتوں وغیرہ عمدہ غذاؤں کے شوقینوں، نیز عالیشان کوٹھیوں، وسیع مکانوں، نت نئے بیش قیمت لباسوں ، ہر طرح کی آسائشوں اورسہولتوں کے طلبگاروں، مالداروں، سرمایہ داروں ، دنیا میں خوب خوشیاں پانے والوں، اچھی صحت والوں، اقتدار کی ہوس میں بد مست رہنے والوں کیلئے بالخصوص غور و فکر کا مقام ہے،
آہ! حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، جب دنیا میں کسی کو نعتموں سے نوازا جاتا ہے تو آخرت میں اس کے سو حصے کم کر دیئے جاتے ہیں ، کیوں کہ وہاں تو صرف وہی ملیگا جو دنیا میں کمایا ہے، لہٰذا انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ حصہ آخرت میں کمی کرے یا زیادتی ۔ مزید فرمایا، دنیا میں عمدہ لباس اور اچھا کھانے کی عادت مت ڈالوکہ محشر میں ان چیزوں سے محروم کر دیئے جاؤ گے۔(7)
عزیز ساتھیو! دنیا کی ساری لذتیں بالآخر ختم ہوجائیں گی کاش! مرنے سے پہلے پہلے ہماری حرص کا خاتمہ ہوجائے۔ ہائے! ہائے! دنیا کی نیر نگیاں! اور اس بے وفا دنیا پرفریفتہ ہونے والوں کی بے نور زندگیاں! آیئے ! میں آپ کو ایک عبرتناک واقعہ سناتا ہوں، ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا! اس تحریر کو ملاحظہ فرمائیے: زندہ بچّی پریشر ککر میں ابال دی!