حضرت سیدنا بکر بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ”گذشتہ لوگوں میں ایک بادشاہ تھا۔ جو بہت زیادہ سرکش تھا۔ وہ اللہ عزوجل کی نافرمانی میں حد سے گزراہوا تھا۔ اس دور کے مسلمانوں نے اس ظالم وسرکش بادشاہ سے جہاد کیا اور اسے زندہ گرفتار کر لیا۔ اب اس کو قتل کرنے کے لئے مختلف قسم کی سزائیں تجویز کی جانے لگیں۔ بالآخر یہ طے پایا کہ اسے ایک تانبے کی بڑی دیگ میں کسی اونچی جگہ پر رکھا جائے اور اس کے نیچے آگ جلا دی جائے تا کہ یہ یکدم مرنے کی بجائے تڑپ تڑپ کر مرے اور اس ظالم کو اس کے ظلم کی پوری پوری سزا ملے۔
چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اسے تانبے کی دیگ میں رکھ کر نیچے آگ جلا دی۔ وہ بادشاہ بہت گھبرایا اور اپنے جھوٹے خداؤں کو باری باری پکارنا شروع کردیا۔ اور کہنے لگا:” اے میرے معبودو! میں ہمیشہ تمہاری عبادت کرتا رہا، تمہیں سجدے کرتا رہا، اب مجھے اس درد ناک عذاب سے بچاؤ۔“ اسی طرح باری باری اس نے تمام جھوٹے خداؤں کو پکارا لیکن اس کا پکارنا رائیگاں گیا۔
کیونکہ وہ تو خود اپنی حفاظت کے محتاج تھے، اس کی کیا حفاظت کرتے۔ بالآ خر وہ اپنے جھوٹے خداؤں سے مایوس ہو گیا اوراس نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور خالق حقیقی عزوجل کی طرف دل سے متوجہ ہوا، اور”لَااِلٰہَ اِلاَّاللہُ”کی صدائیں بلند کرنے لگا اور گڑ گڑا کر سچے دل سے اللہ پاک کو پکارنے لگا۔
اُڑنے والی دیگ
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس کی یہ مخلصا نہ گریہ وزاری مقبول ہوئی۔ اور اللہ پاک نے ایسی بارش برسائی کہ ساری آگ بجھ گئی۔ پھر تیز ہوا چلی اور اسے دیگ سمیت اڑا کر لے گئی۔ اب وہ ہوا میں اڑنے لگا اور یہ صدا بلند کرتا رہا،
پھر اللہ عزوجل نے اسے دیگ سمیت ایسی قوم میں اُتا را جو مسلمان نہ تھی بلکہ ساری قوم ہی کافر تھی ، جب لوگو ں نے دیکھا کہ دیگ میں ایک شخص ہے اوروہ کلمہ طیبہ ”لَااِلٰہَ اِلاَّاللہُ” پڑھ رہا ہے تو سب لوگ اس کے گر د جمع ہوگئے اور کہنے لگے:” تیری ہلاکت ہو! یہ تو کیا کہہ رہا ہے ۔”
بادشاہ نے کہا:”میں فلاں ملک کا بادشاہ ہوں اور میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے ۔”جب لوگو ں نے بادشاہ کا قصہ سنا تو سب کے سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور معبودِ حقیقی عزوجل کی عبادت کرناشروع کر دی۔