اگر نابینا امام میں امامت کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں، اور اس وقت نابینا سے زیادہ نماز و طہارت کے مسائل جاننے والا اور صحیح قراءت کرنے والا کوئی اور موجود نہ ہو تو نابینا کا امامت کرانا بلا کراہت جائز ہے۔
نابینا امام کی امامت کا حکم
اگر اس وقت نابینا کے علاوہ کوئی اور ایسا شخص موجود ہو جس کی نظر و اعضاء سلامت ہوں اور اس میں امامت کی شرائط پائی جاتی ہوں، نیز وہ نابینا سے زیادہ یا اس کے برابر نماز و طہارت کے مسائل جانتا ہو، تو اس صحیح اعضاء والے کی موجودگی میں نابینا کا امامت کرانا مکروہ تنزیہی ہے۔ یعنی یہ جائز ہے مگر اس سے بچنا بہتر ہے۔
اور اگر نابینا میں شرائط امامت میں سے کوئی شرط نہیں پائی جاتی تو اس کی امامت جائز نہیں ہے۔
نابینا امام سے بچنے کی وجہ
نابینا کو امام بنانے سے بچنا اس لیے بہتر ہے کہ عام طور پر نابینا شخص پاکی، ناپاکی کا خیال نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی خود قبلہ کی سمت معلوم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے، بلکہ ان امور میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے، لہٰذا ایسا شخص امام بنایا جائے جو ان چیزوں کا خیال رکھتا ہو۔
فقہی حوالہ جات:
علامہ ابراہیم حلبی علیہ الرحمۃ اس مسئلے کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”لانہ لایری النجاسۃ لیتحرز عنھا وقد ینحرف عن القبلۃ“ ترجمہ: نابینا کے پیچھے نماز اس لیے مکروہ ہے کہ وہ نجاست نہیں دیکھ سکتا کہ اس سے بچ سکے اور کبھی کبھار تو قبلے ہی سے منحرف ہو جاتا ہے (1)۔
صدرالشریعۃ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”نابینا کی امامت مکروہِ تنزیہی ہے، جبکہ دوسرے لوگ مسائل طہارت ونماز میں اس سے زائد یا اس کے برابر ہوں اور اگر سب سے زائد یہی علم رکھتا ہو، تو اس کی امامت میں اصلاً کراہت نہیں، بلکہ اس صورت میں اسی کو امام بنانا بہتر ہے۔“ (2)۔