اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو ”احسن القصص“ یعنی تمام قصوں میں سب سے اچھا قصہ فرمایا ہے۔ اس لئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی مقدس زندگی کے اتار چڑھاؤ میں اور رنج و راحت اور غم و سرور کے مد و جزر میں ہر ایک واقعہ بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے سامان اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ اس لئے ہم اس قصہ عجیبہ کا خلاصہ تحریر کرتے ہیں۔ تاکہ ناظرین اس سے عبرت حاصل کریں اور خداوند قدوس کی قدرتوں کا مشاہدہ کریں۔
حضرت یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہم السلام کے بارہ بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں:
- یہودا
- روبیل
- شمعون
- لاوی
- زبولون
- یسجر
- دان
- نفتائی
- جاد
- آشر
- یوسف
- بنیامین
حضرت بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے۔ باقی دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ اپنے باپ کے پیارے تھے اور چونکہ ان کی پیشانی پر نبوت کے نشان درخشاں تھے اس لئے حضرت یعقوب علیہ السلام ان کا بے حد اکرام اور ان سے انتہائی محبت فرماتے تھے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب
سات برس کی عمر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند و سورج ان کو سجدہ کررہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب اپنا یہ خواب اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو سنایا تو آپ نے ان کو منع فرما دیا کہ پیارے بیٹے! خبردار تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے مت بیان کر دینا ورنہ وہ لوگ جذبہ حسد میں تمہارے خلاف کوئی خفیہ چال چل دیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے بھائیوں کو ان پر حسد ہونے لگا۔ یہاں تک کہ سب بھائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ منصوبہ تیار کر لیا کہ ان کو کسی طرح گھر سے لے جا کر جنگل کے کنوئیں میں ڈال دیں۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے سب بھائی جمع ہو کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے۔ بہت اصرار کر کے شکار اور تفریح کا بہانہ بنا کر ان کو جنگل میں لے جانے کی اجازت حاصل کرلی۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا کنواں
پھر ان کو گھر سے کندھوں پر بٹھا کر لے چلے۔ لیکن جنگل میں پہنچ کر دشمنی کے جوش میں ان کو زمین پر پٹخ دیا۔ اور سب نے بہت زیادہ مارا۔ پھر ان کا کرتا اتار کر اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک گہرے اور اندھیرے کنوئیں میں گرا دیا۔ لیکن فوراً ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کنوئیں میں تشریف لا کر ان کو غرق ہونے سے اس طرح بچالیا کہ ان کو ایک پتھر پر بٹھا دیا جو اس کنوئیں میں تھا۔
ان کے ہاتھ پاؤں کھول کر تسلی دیتے ہوئے ان کا خوف و ہراس دور کر دیا۔ گھر سے چلتے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کا جو کرتا تعویذ بنا کر آپ کے گلے میں ڈال دیا تھا وہ نکال کر ان کو پہنا دیا۔ جس سے اس اندھیرے کنوئیں میں روشنی ہو گئی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کو کنوئیں میں ڈال کر اور آپ کے پیراہن کو ایک بکری کے خون میں لت پت کر کے اپنے گھر کو روانہ ہو گئے۔
مکان کے باہر ہی سے چیخیں مار کر رونے لگے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام گھبرا کر گھر سے باہر نکلے۔ اور رونے کا سبب پوچھا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ کیا تمہاری بکریوں کو کوئی نقصان پہنچ گیا ہے؟ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ میرا یوسف کہاں ہے؟ میں اس کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔
ہوشیار بھیڑیا
تو بھائیوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ کھیل میں دوڑتے ہوئے دور نکل گئے اور یوسف علیہ السلام کو اپنے سامان کے پاس بٹھا کر چلے گئے تو ایک بھیڑیا آیا اور وہ ان کو پھاڑ کر کھا گیا۔ اور یہ ان کا کرتا ہے۔ ان لوگوں نے کرتے میں خون تو لگا لیا تھا لیکن کرتے کو پھاڑنا بھول گئے تھے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اشک بار ہو کر اپنے نورِ نظر کے کرتے کو جب ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا تو کرتا بالکل سلامت ہے اور کہیں سے بھی پھٹا نہیں ہے تو آپ ان لوگوں کے مکر اور جھوٹ کو بھانپ گئے۔ فرمایا کہ بڑا ہوشیار اور سیانا بھیڑیا تھا کہ میرے یوسف کو تو پھاڑ کر کھا گیا مگر ان کے کرتے پر ایک ذرا سی خراش بھی نہیں آئی اور آپ نے صاف صاف فرما دیا کہ یہ سب تم لوگوں کی کارستانی اور مکر و فریب ہے۔ پھر آپ نے دکھے ہوئے دل سے نہایت درد بھری آواز میں فرمایا۔
کنوے سے نجات
حضرت یوسف علیہ السلام تین دن اس کنوئیں میں تشریف فرما رہے۔ یہ کنواں کھاری تھا۔ مگر آپ کی برکت سے اس کا پانی بہت لذیذ اور نہایت شیریں ہو گیا۔ اتفاق سے ایک قافلہ مدین سے مصر جا رہا تھا۔ جب اس قافلہ کا ایک آدمی جس کا نام مالک بن ذُعر خزاعی تھا، پانی بھرنے کے لئے آیا اور کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام ڈول پکڑ کر لٹک گئے۔ مالک بن ذُعر نے ڈول کھینچا تو آپ کنوئیں سے باہر نکل آئے۔ جب اس نے آپ کے حسن و جمال کو دیکھا تو
کہہ کر اپنے ساتھیوں کو خوشخبری سنانے لگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جو اس جنگل میں روزانہ بکریاں چرایا کرتے تھے، برابر روزانہ کنوئیں میں جھانک جھانک کر دیکھا کرتے تھے۔ جب ان لوگوں نے آپ کو کنوئیں میں نہیں دیکھا تو تلاش کرتے ہوئے قافلہ میں پہنچے اور آپ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ تو ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے جو بالکل ہی ناکارہ اور نافرمان ہے۔ یہ کسی کام کا نہیں ہے۔
اگر تم لوگ اس کو خریدو تو ہم بہت ہی سستا تمہارے ہاتھ فروخت کردیں گے مگر شرط یہ ہے کہ تم لوگ اس کو یہاں سے اتنی دور لے جا کر فروخت کرنا کہ یہاں تک اس کی خبر نہ پہنچے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں کے خوف سے خاموش کھڑے رہے اور ایک لفظ بھی نہ بولے۔ پھر ان کے بھائیوں نے ان کو مالک بن ذعر کے ہاتھ صرف بیس درہموں میں فروخت کر دیا۔
قصہ یوسف و زلیخا
مالک بن ذعر ان کو خرید کر مصر کے بازار میں لے گیا۔ اور وہاں عزیز مصر نے ان کو بہت گراں قیمت دے کر خرید لیا اور اپنے شاہی محل میں لے جا کر اپنی ملکہ ”زلیخا“ سے کہا کہ تم اس غلام کو نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنی خدمت میں رکھو۔ چنانچہ آپ عزیز مصر کے شاہی محل میں رہنے لگے۔ اور ملکہ زلیخا ان سے بہت محبت کرنے لگی بلکہ ان کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو کر عاشق ہو گئی۔
اس کا جوشِ عشق یہاں تک بڑھا کہ ایک دن ”زلیخا“ عشق و محبت میں والہانہ طور پر آپ کو پُھسلانے اور لبھانے لگی۔ اور آپ کو ہم بستری کی دعوت دینے لگی۔ آپ نے معاذ اللہ کہہ کر انکار فرما دیا۔ صاف صاف کہہ دیا کہ میں اپنے مالک عزیز مصر کے ساتھ خیانت کر کے اس کے احسانوں کی ناشکری نہیں کر سکتا اور آپ گھر میں سے بھاگ نکلے۔ تو ملکہ زلیخا نے دوڑ کر پیچھے سے آپ کا پیراہن پکڑ لیا۔ آپ کا پیراہن پیچھے سے پھٹ گیا۔
چار ماہ کے بچے کی گواہی
عین اسی حالت میں عزیز مصر مکان میں آگئے اور دونوں کو دیکھ لیا۔ تو زلیخا نے آپ پر تہمت لگا دی۔ عزیز مصر حیران ہو گیا کہ ان دونوں میں سے کون سچا ہے۔ اتفاق سے مکان میں ایک چار ماہ کا بچہ پالنے میں لیٹا ہوا تھا۔ اس نے شہادت دی کہ اگر کرتا آگے سے پھٹا ہو تو یوسف علیہ السلام قصور وار ہیں اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہو تو زلیخا کی خطا ہے اور یوسف علیہ السلام بے قصور ہیں۔
جب عزیز مصر نے دیکھا تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ فوراً عزیز مصر نے زلیخا کو خطا وار قرار دے کر ڈانٹا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے یہ کہا کہ اس کا خیال و ملال نہ کیجئے۔ پھر زلیخا کے مشورہ سے عزیز مصر نے یوسف علیہ السلام کو قید خانہ میں بھجوا دیا۔ اس طرح اچانک حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے شاہی محل سے نکل کر جیل خانہ کی کوٹھری میں چلے گئے۔
آپ نے جیل میں پہنچ کر یہ کہا کہ اے اللہ عزوجل! یہ قید خانہ کی کوٹھری مجھ کو اس بلا سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف زلیخا مجھے بلا رہی تھی۔ پھر آپ سات برس یا بارہ برس جیل خانہ میں رہے اور قیدیوں کو توحید اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتے اور وعظ فرماتے رہے۔
خوابوں کی تعبیر
یہ عجیب اتفاق کہ جس دن آپ قید خانہ میں داخل ہوئے اُسی دن آپ کے ساتھ بادشاہ مصر کے دو خادم ایک شراب پلانے والا، دوسرا باورچی دونوں جیل خانہ میں داخل ہوئے اور دونوں نے اپنا ایک ایک خواب حضرت یوسف علیہ السلام سے بیان کیا اور آپ نے اُن دونوں کے خوابوں کی تعبیر بیان فرما دی جو سو فیصدی صحیح ثابت ہوئی۔ اس لئے آپ کا نام معبر (تعبیر دینے والا)ہونا مشہور ہو گیا۔
اسی دوران مصر کے بادشاہ اعظم ریال بن ولید نے یہ خواب دیکھا کہ سات فربہ گایوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور سات سوکھی بالیاں ہیں۔ بادشاہ اعظم نے اپنے درباریوں سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو لوگوں نے اس خواب کو خواب پریشاں کہہ کر اس کی کوئی تعبیر نہیں بتائی۔
اتنے میں بادشاہ کا ساقی جو قید خانہ سے رہا ہو کر آگیا تھا، اس نے کہا کہ مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لئے جیل خانہ میں جانے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ یہ بادشاہ کا فرستادہ ہو کر قید خانہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس گیا اور بادشاہ کا خواب بیان کر کے تعبیر دریافت کی کہ سات دبلی گائیں سات موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور سات سوکھی۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ سات برس مسلسل کھیتی کرو اور ان کے اناجوں کو بالیوں میں محفوظ رکھو۔ پھر سات برس تک سخت خشک سالی رہے گی، قحط کے ان سات برسوں میں پہلے سات برسوں کا محفوظ کیا ہوا اناج لوگ کھائیں گے اس کے بعد پھر ہریالی کا سال آئے گا۔
رہائی کی شرط
قاصد نے واپس جا کر بادشاہ سے اُس کے خواب کی تعبیر بتائی تو بادشاہ نے حکم دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ سے نکال کر میرے دربار میں لاؤ۔ قاصد رہائی کا پروانہ لے کر جیل خانہ میں پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زلیخا اور دوسری عورتوں کے ذریعہ میری بے گناہی اور پاک دامنی کا اظہار کرالیا جائے اس کے بعد ہی میں جیل سے باہر نکلوں گا۔
چنانچہ بادشاہ نے اس کی تحقیقات کرائی تو تحقیقات کے دوران زلیخا نے اقرار کر لیا کہ میں نے خود ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلایا تھا خطا میری ہے۔ حضرت یوسف سچے اور پاک دامن ہیں۔ اس کے بعد بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں بلا کر کہہ دیا کہ آپ ہمارے معتمد اور ہمارے دربار کے معزز ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا کہ آپ زمین کے خزانوں کے انتظامی امور اور حفاظتی نظام کے انتظام پر میرا تقرر کر دیں۔ میں پورے نظام کو سنبھال لوں گا۔ بادشاہ نے خزانے کا انتظامی معاملہ اور ملک کے نظام و انصرام کا پورا شعبہ آپ کے سپرد کر دیا۔ اس طرح ملک مصر کی حکمرانی کا اقتدار آپ کو مل گیا۔
کھیتی کا پلان
اس کے بعد آپ نے خزانوں کا نظام اپنے ہاتھ میں لے کر سات سال تک کھیتی کا پلان چلایا اور اناجوں کو بالیوں میں محفوظ رکھا۔ یہاں تک کہ قحط اور خشک سالی کا زور شروع ہو گیا تو پوری سلطنت کے لوگ غلے کی خریداری کے لئے مصر آنا شروع ہو گئے اور آپ نے غلوں کی فروخت شروع کر دی۔
اسی سلسلے میں آپ کے بھائی کنعان سے مصر آئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے تو ان لوگوں کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں پہچان لیا مگر آپ کے بھائیوں نے آپ کو بالکل ہی نہیں پہچانا۔ آپ نے ان لوگوں کو غلہ دے دیا اور پھر فرمایا کہ تمہارا ایک بھائی (بنیامین)ہے آئندہ اس کو بھی ساتھ لے کر آنا۔ اگر تم لوگ آئندہ اس کو نہ لائے تو تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔
بھائیوں نے جواب دیا کہ ہم اس کے والد کو رضامند کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے غلاموں سے کہا کہ تم لوگ ان کی نقدیوں کو ان کی بوریوں میں ڈال دو تاکہ یہ لوگ جب اپنے گھر پہنچ کر ان نقدیوں کو دیکھیں گے تو امید ہے کہ ضرور یہ لوگ واپس آئیں گے۔
بھائیوں کا حلف
چنانچہ جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ ابا جان! اب کیا ہو گا؟ عزیز مصر نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ جب تک تم لوگ ”بنیامین“ کو ساتھ لے کر نہ آؤ گے تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔ لہٰذا آپ ”بنیامین“ کو ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ ہم ان کے حصہ کا بھی غلہ لے لیں۔ اور آپ اطمینان رکھیں کہ ہم لوگ ان کی حفاظت کریں گے۔
اس کے بعد جب ان لوگوں نے اپنی بوریوں کو کھولا تو حیران رہ گئے کہ ان کی رقمیں اور نقدیاں ان کی بوریوں میں موجود تھیں۔ یہ دیکھ کر برادران یوسف نے پھر اپنے والد سے کہا کہ ابا جان! اس سے بڑھ کر اچھا سلوک اور کیا چاہے؟ دیکھ لیجئے عزیز مصر نے ہم کو پورا پورا غلہ بھی دیا ہے اور ہماری نقدیوں کو بھی واپس کر دیا ہے لہٰذا آپ بلا خوف و خطر ہمارے بھائی ”بنیامین“ کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ایک مرتبہ ”یوسف“ کے معاملہ میں تم لوگوں پر بھروسا کر چکا ہوں تو تم لوگوں نے کیا کر ڈالا۔ اب دوبارہ میں تم لوگوں پر کیسے بھروسا کر لوں؟ میں اس طرح ”بنیامین“ کو ہر گز تم لوگوں کے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔ لیکن ہاں اگر تم لوگ حلف اٹھا کر میرے سامنے عہد کرو تو البتہ میں اس کو بھیج سکتا ہوں۔ یہ سن کر سب بھائیوں نے حلف لے کر عہد کیا اور آپ نے ان لوگوں کے ساتھ ”بنیامین“ کو بھیج دیا۔
بنیامین کو روک لیا گیا
جب یہ لوگ عزیز مصر کے دربار میں پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی ”بنیامین“ کو اپنی مسند پر بٹھا لیا اور چپکے سے ان کے کان میں کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی ”یوسف“ ہوں۔ لہٰذا تم کوئی فکر و غم نہ کرو۔ پھر آپ نے سب کو اناج دیا اور سب نے اپنی اپنی بوریوں کو سنبھال لیا۔ جب سب چلنے لگے تو آپ نے ”بنیامین”کو اپنے پاس روک لیا۔
اب برادرانِ یوسف سخت پریشان ہوئے۔ اپنے والد کے روبرو یہ عہد کر کے آئے تھے کہ ہم اپنی جان پر کھیل کر بنیامین کی حفاظت کریں گے اور یہاں ”بنیامین“ ان کے ہاتھ سے چھین لئے گئے۔ اب گھر جائیں تو کیونکر اور یہاں ٹھہریں تو کیسے؟
یہ معاملہ دیکھ کر سب سے بڑا بھائی ”یہودا“ کہنے لگا کہ اے میرے بھائیو! سوچو کہ تم لوگ والد صاحب کو کیا کیا عہد و پیمان دے کر آئے ہو؟ اور اس سے پہلے تم اپنے بھائی یوسف کے ساتھ کتنی بڑی تقصیر کرچکے ہو۔ لہٰذا میں تو جب تک والد صاحب حکم نہ دیں اس زمین سے ہٹ نہیں سکتا۔ ہاں تم لوگ گھر جاؤ اور والد صاحب سے سارا ماجرا عرض کر دو۔
باقی بھائیوں کی واپسی
چنانچہ یہودا کے سوا دوسرے سب بھائی لوٹ کر گھر آئے اور اپنے والد سے سارا حال بیان کیا۔ تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ یوسف کی طرح بنیامین کے معاملہ میں بھی تم لوگوں نے حیلہ سازی کی ہے۔ تو خیر، میں صبر کرتا ہوں اور صبر بہت اچھی چیز ہے۔ پھر آپ نے منہ پھیر کر رونا شروع کر دیا۔ اور کہا کہ ہائے افسوس! حضرت یوسف علیہ السلام کو یاد کر کے اتنا روئے کہ شدت غم سے نڈھال ہو گئے اور روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئیں۔
آپ کی زبان سے یوسف علیہ السلام کا نام سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام سے ان کے بیٹوں پوتوں نے کہا کہ اباجان!آپ ہمیشہ یوسف علیہ السلام کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لبِ گور ہو جائیں یا جان سے گزر جائیں۔
اپنے بیٹوں پوتوں کی بات سن کر آپ نے فرمایا کہ میں اپنے غم اور پریشانی کی فریاد اللہ پاک ہی سے کرتا ہوں اور میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم لوگوں کو معلوم نہیں۔ اے میرے بیٹو! تم لوگ جاؤ۔ اور یوسف اور اُس کے بھائی ”بنیامین“ کو تلاش کرو۔ خدا کی رحمت سے مایوس مت ہو جاؤ کیونکہ خدا کی رحمت سے مایوس ہو جانا کافروں کا کام ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام پر رقت
چنانچہ برادران یوسف پھر مصر کو روانہ ہوئے اور جا کر عزیز مصر سے کہا کہ اے عزیز مصر! ہمارے گھر والوں کو بہت بڑی مصیبت پہنچ گئی ہے اور ہم چند کھوٹے سکے لے کر آئے ہیں۔ لہٰذا آپ بطورِ خیرات کے کچھ غلہ دے دیجئے۔ اپنے بھائیوں کی زبان سے گھر کی داستان اور خیرات کا لفظ سن کر حضرت یوسف علیہ السلام پر رقت طاری ہو گئی۔
آپ نے بھائیوں سے پوچھا کہ تم لوگوں کو یاد ہے کہ تم لوگوں نے یوسف اور اُس کے بھائی بنیامین کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا ہے؟ یہ سن کر بھائیوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ سچ مچ آپ یوسف علیہ السلام ہی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ میں ہی یوسف ہوں اور یہ بنیامین میرا بھائی ہے۔
اللہ پاک نے ہم پر بڑا فضل و احسان فرمایا ہے۔ یہ سن کر بھائیوں نے نہایت شرمندگی اور لجاجت کے ساتھ کہنا شروع کیا کہ بلاشبہ ہم لوگ واقعی بڑے خطاکار ہیں اور اللہ پاک نے آپ کو ہم لوگوں پر بہت بڑی فضیلت بخشی ہے۔ بھائیوں کی شرمندگی اور لجاجت سے متاثر ہو کر آپ کا دل بھر آیا اور آپ نے فرمایا کہ آج میں تم لوگوں کو ملامت نہیں کروں گا۔ جاؤ میں نے سب کچھ معاف کر دیا۔ اللہ پاک تمہیں معاف فرمائے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا
اب تم لوگ میرا یہ کرتا لے کر گھر جاؤ اور ابا جان کے چہرے پر اس کو ڈال دو تو ان کی آنکھوں میں روشنی آ جائے گی۔ پھر تم لوگ سب گھر والوں کو ساتھ لے کر مصر چلے آؤ۔ بڑا بھائی یہودا کہنے لگا کہ یہ کرتا میں لے کر جاؤں گا کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا بکری کے خون میں رنگ کر میں ہی اُن کے پاس لے گیا تھا۔ تو جس طرح میں نے اُنہیں وہ کرتا دے کر غمگین کیا تھا۔ آج یہ کرتا لے جا کر ان کو خوش کر دوں گا۔
چنانچہ یہودا یہ کرتا لے کر گھر پہنچا اور اپنے والد کے چہرے پر ڈال دیا تو اُن کی آنکھوں میں بینائی آگئی۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے تہجد کے وقت کے بعد اپنے سب بیٹوں کے لئے دعا فرمائی اور وہ دعا مقبول ہو گئی۔ چنانچہ آپ پر یہ وحی اتری کہ آپ کے صاحبزادوں کی خطائیں بخش دی گئیں۔
پھر مصر کو روانگی کا سامان ہونے لگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد اور سب اہل و عیال کو لانے کے لئے بھائیوں کے ساتھ دو سو سواریاں بھیج دیں تھیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے گھر والوں کو جمع کیا تو کل بہتر یا تہتر آدمی تھے۔ جن کو ساتھ لے کر آپ مصر روانہ ہو گئے۔ مگر اللہ پاک نے آپ کی نسل میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے۔ حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے مصر جانے سے صرف چار سو سال بعد کا زمانہ ہے۔
شاندار استقبال اور فرشتے
جب حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے چار ہزار لشکر اور بہت سے مصری سواروں کو ساتھ لے کر آپ کا استقبال کیا اور صدہا ریشمی جھنڈے اور قیمتی پرچم لہراتے ہوئے قطاریں باندھے ہوئے مصری باشندے جلوس کے ساتھ روانہ ہوئے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزند ”یہودا“ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لا رہے تھے۔ جب ان لشکروں اور سواروں پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ فرعون مصر کا لشکر ہے؟ تو یہودا نے عرض کیا کہ جی نہیں۔ یہ آپ کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو اپنے لشکروں اور سواروں کے ساتھ آپ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے ہیں۔
آپ کو متعجب دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ پاک کے نبی ذرا سر اٹھا کر فضائے آسمانی میں نظر فرمایئے کہ آپ کے سرور و شادمانی میں شرکت کے لئے ملائکہ کا جمِ غفیر حاضر ہے جو مدتوں آپ کے غم میں روتے رہے ہیں۔ ملائکہ کی تسبیح اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور طبل و بوق کی آوازوں نے عجیب سماں پیدا کر دیا تھا۔
شاہی محل
جب باپ بیٹے دونوں قریب ہو گئے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے سلام کا ارادہ کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ ذرا توقف کیجئے اور اپنے پدر بزرگوار کو اُن کے رقت انگیز سلام کا موقع دیجئے۔ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان لفظوں کے ساتھ سلام کہا کہ
یعنی اے تمام غموں کو دور کرنے والے آپ پر سلام ہو۔ پھر باپ بیٹوں نے نہایت گرمجوشی کے ساتھ معانقہ کیا اور فرط مسرت میں دونوں خوب روئے۔ پھر ایک استقبالیہ خیمہ میں تشریف لے گئے جو خوب مزین اور آراستہ کیا گیا تھا۔ وہاں تھوڑی دیر ٹھہر کر جب شاہی محل میں رونق افروز ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے سہارا دے کر اپنے والد محترم کو تخت شاہی پر بٹھایا۔
ان کے اردگرد آپ کے گیارہ بھائی اور آپ کی والدہ سب بیٹھ گئے اور سب کے سب بیک وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے آگے سجدے میں گر پڑے۔
گیارہ ستارے اور سورج و چاند
اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد بزگوار کو مخاطب کر کے یہ کہا:
ترجمہ: اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بیشک اسے میرے رب نے سچا کیا اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرا دی تھی بیشک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کر دے بیشک وہی علم و حکمت والا ہے۔ (2)
یعنی میرے گیارہ بھائی ستارے ہیں اور میرے باپ سورج اور میری والدہ چاند ہے اور یہ سب مجھ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ یہی آپ کا خواب تھا جو بچپن میں دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور سورج و چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ تاریخی واقعہ محرم کی دس تاریخ عاشورہ کے دن وقوع پذیر ہوا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات
اصحاب تواریخ کا بیان ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام مصر میں اپنے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس چوبیس سال تک نہایت آرام و خوشحالی میں رہے۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ ملک شام میں لے جا کر مجھے میرے والد حضرت اسحٰق علیہ السلام کی قبر کے پہلو میں دفن کرنا۔
چنانچہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جسم مقدس کو لکڑی کے صندوق میں رکھ کر مصر سے شام لایا گیا۔ ٹھیک اسی وقت آپ کے بھائی حضرت ”غیص“ کی وفات ہوئی اور آپ دونوں بھائیوں کی ولادت بھی ایک ساتھ ہوئی تھی۔ آپ دونوں ایک ہی قبر میں دفن کئے گئے اور دونوں بھائیوں کی عمریں ایک سو سینتالیس برس کی ہوئیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد اور چچا کو دفن فرما کر پھر مصر تشریف لائے اور اپنے والد ماجد کے بعد 23 سال تک مصر پر حکومت فرماتے رہے۔ اس کے بعد آپ کی بھی وفات ہو گئی۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار
آپ کی وفات کے بعد آپ کے مقام دفن میں سخت اختلاف پیدا ہو گیا۔ ہر محلے والے حصول برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن پر اصرار کرنے لگے۔ آخر اس بات پر سب کا اتفاق ہو گیا کہ آپ کو بیچ دریائے نیل میں دفن کیا جائے۔ تاکہ دریا کا پانی آپ کی قبر منور کو چھوتا ہوا گزرے اور تمام مصر والے آپ کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہوتے رہیں۔
چنانچہ آپ کو سنگ مرمر کے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے بیچ میں دفن کیا گیا۔ یہاں تک کہ چار سو برس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کے تابوت شریف کو دریا سے نکال کر آپ کے آباؤ اجداد کی قبروں کے پاس ملک شام میں دفن فرمایا۔ بوقت وفات آپ کی عمر شریف ایک سو بیس برس کی تھی اور آپ کے والد محترم حضرت یعقوب علیہ السلام نے 147 برس کی عمر پائی۔
آپ کے دادا حضرت اسحٰق علیہ السلام کی عمر شریف 180 سال کی ہوئی اور آپ کے پردادا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی عمر شریف 175 سال کی ہوئی؟ (3)