دین اسلام نے معاشرے کو بہترین بنانے کے کئی قوانین و اصول بتائے ہیں۔ ان میں سے ایک عظیم اور اہم اصول ایثار ہے۔
ایثار معاشرے کے افراد کو باہم مربوط کرتا ہے اور ان کے تعلق میں مضبوطی لاتا ہے۔
من ترک شهوة وهو یقدر علیها لغيره غفر لهنبیِّ پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اپنی خواہش ترک کر دے اور دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دے، تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔ (1)
ایثار کی تعریف
ایثار کا مطلب ہے: دوسروں کی خواہش اور حاجت کو اپنی خواہش و حاجت پر ترجیح دینا۔ یعنی اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر قربان کر دینا۔
نفس چاہتا ہے کہ انسان اپنی ضروریات اور خواہشات کو مقدم رکھے، لیکن جذبۂ ایثار کا تقاضا یہ ہے کہ رضائے الٰہی کی خاطر دوسروں کو ترجیح دی جائے، چاہے وہ چیز کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو۔
ایثار صرف مال میں نہیں
ایثار صرف کھانے پینے یا لباس میں نہیں، بلکہ:
- کسی کو سڑک پار کرنے میں پہلے موقع دینا
- بوڑھوں کو قطار میں آگے جانے دینا
- مسافر کو بس یا ٹرین میں اپنی سیٹ دینا
- کھانے میں اچھی بوٹی دوسروں کو پیش کرنا
یہ سب ایثار کی زندہ مثالیں ہیں جو روزمرہ زندگی میں بآسانی کی جا سکتی ہیں۔
ایثار کا انعام
اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث میں ایثار کی بے شمار فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ جب ایک شخص اپنی خواہش چھوڑ کر کسی دوسرے کو راحت دیتا ہے تو یہ نیکی اس کے حق میں مغفرت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ایثار کا دائرہ وسیع ہے
اگر ہم غور کریں تو ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں ایثار کا عمل کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔ چاہے وہ سوشل رویے ہوں، خاندانی معاملات یا سفر و حضر کی حالت ہو۔
خلاصہ: ایثار وہ عظیم صفت ہے جو انسان کو نہ صرف جنت کے قریب کرتی ہے بلکہ معاشرتی حسن، باہمی محبت اور الفت کو بھی فروغ دیتی ہے۔
حوالہ جات
1↑ | تاریخ دمشق، ج31، ص142 |
---|