صدقاتِ واجبہ کا مقصد فقراء و مساکین کی امداد تھا۔ پہلے مسلمان دین کی راہ میں، دین کے کاموں میں، مساجد، مدارس، دینی درسگاہوں، علم دین کی تعلیم و تعلم وغیرہ کی امداد میں دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح سلطنتِ اسلام کا خزانہ و بیت المال بھی دین کی امداد میں دل کھول کر خرچ کرتا اور سارے اخراجات پورے ہو جاتے۔
مگر فی زمانہ جب لوگ دین سے دور ہو چکے ہیں، سلطنتیں اسلام کے طریقے کے بجائے مغربی نظام پر مکمل طور پر ڈھل چکی ہیں، حکومت کی طرف سے بھی شعائرِ دین کی امداد ختم ہو چکی اور لوگوں کے دین سے دور ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی اپنی جیب سے خرچ کرنا کم کر دیا، جس کی وجہ سے شعائرِ دین میں نقصان کا خوف ہوا۔ انہی وجوہات کی بنا پر امامت و تدریس پر اجرت کے جواز کے فتوے دیے گئے۔
یوں ہی فی زمانہ حالاتِ مذکورہ کی وجہ سے علماء و مفتیان کرام نے اس بات کی اجازت دی کہ زکات و فطرہ (صدقاتِ واجبہ) حیلہ کرکے مساجد و مدارس اور علم دین کی اشاعت کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ ڈائریکٹ زکات و فطرہ کو ان جگہوں پر نہیں دے سکتے۔ اگر مساجد و مدارس میں زکات کے پیسے براہ راست لگائے جائیں گے تو زکات و فطرہ ادا نہیں ہو گا۔
حیلہ تملیک کا طریقہ کار
اس کا ایک طریقہ کار ہے وہ یوں کہ مسجد یا مدرسے کا متولی یا ذمہ دار ان زکات و فطرہ کے پیسوں کو الگ کرے گا، اور وہ پیسے کسی شرعی فقیر کی ملک کیے جائیں گے۔ یوں جب اس شرعی فقیر کی ملک ہو جائیں گے تو زکات ادا ہو جائے گی۔ پھر وہ شرعی فقیر خود اپنی خوشی سے اس مسجد یا مدرسے کے لیے وہ پیسے دے گا۔ تو چونکہ اس کی ملکیت میں پیسوں کے آ جانے سے زکات ادا ہو گئی، اب وہ زکات کے پیسے نہ رہے بلکہ وہ اس فقیر کی اپنی ملکیت ہے۔ اور وہ خوشی سے مسجد یا مدرسے کو پیسے دے گا تو یوں مساجد و مدارس اور علم دین کے اخراجات کو پورا کیا جائے گا۔
اس کے لیے بھی ایک پورا طریقہ کار ہے جو بہت سارے شرعی مسائل پر مشتمل ہے اور علماء کرام اور مفتیان کرام کی زیر نگرانی سر انجام دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ وقت کی اشد ضرورت کی وجہ سے ہی علماء کرام نے یہ اجازت دی ہے، وگرنہ ایسا حیلہ کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔
تو ایسے ادارے جو اس مقصد کے تحت زکات و فطرہ کے پیسے لیتے ہیں تاکہ فقیر شرعی کی ملک کر کے پھر اس کے بعد دین کی اشاعت میں لگائے جائیں اور وہ ادارے واقعی اور حقیقی طور پر اس طرح کرتے ہوں، تو ایسے مستند اداروں کو وکیل بنا کر اپنے زکات و فطرہ کے پیسے دینے میں بھی حرج نہیں ہے۔ جب وہ شرعی طریقہ کار کے مطابق اور شریعت کی رہنمائی میں وہ آپ کے زکات کے پیسے مستحقین کی ملک کر کے پھر ان کے دینے سے دین کی اشاعت میں لگائیں تو بھی آپ کی زکات ادا ہو جائے گی کیونکہ اس صورت میں بھی زکات اپنے مستحق کی ہی ملک ہو گی جو کہ زکات کی ادائیگی کے لیے شرط ہے۔
واللہ تعالیٰ أعلم و رسولہ ﷺ أعلم