غسل ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان خود کو پاک کرتا اور عبادت کے قابل بناتا ہے۔ یہ صرف جسم پر پانی بہا دینے کا نام نہیں ہے۔ غسل کے تین فرائض ہیں۔ اگر ان کو پورا نہ کیا جائے تو غسل نہیں ہوتا اور بندہ ناپاک ہی رہتا ہے۔ ان کو توجہ سے سیکھیں اور سمجھیں۔
غسل کے تین فرائض (Ghusal ke Faraiz)
- کُلی کرنا
- ناک میں پانی چڑھانا
- تمام ظاہِر بدن پرپانی بہانا۔ (1)
۱.کُلّی کرنا
منہ میں تھوڑا سا پانی لے کر پچ کر کے ڈال دینے کا نام کلی نہیں۔ بلکہ منہ کے ہر پرزے، گوشے، ہونٹ سے حلق کی جڑ تک ہر جگہ پانی بہ جائے۔ اسی طرح داڑھوں کے پیچھے گالوں کی تہ میں، دانتوں کی کھِڑکیوں اور جڑوں اور زبان کی ہر کروٹ پر بلکہ حلق کے کَنارے تک پانی بہے۔ روزہ نہ ہو تو غَرغَرہ بھی کر لیجئے کہ سنّت ہے۔
دانتوں میں چھالیہ کے دانے یا بوٹی کے ریشے وغیرہ ہوں تو ان کو چھڑانا ضروری ہے۔ ہاں اگر چھڑانے میں ضرر(2) کا اندیشہ ہو تو معاف ہے۔ غسل سے قبل دانتوں میں ریشے وغیرہ محسوس نہ ہوئے اور رَہ گئے نماز بھی پڑھ لی بعد کو معلوم ہونے پرچھڑا کر پانی بہانا فرض ہے۔ پہلے جو نماز پڑھی تھی وہ ہو گئی۔ جو ہلتا دانت مسالے سے جمایا گیا یا تار سے باندھا گیا اور تار یا مسالے کے نیچے پانی نہ پہنچتا ہو تو معاف ہے۔ (3) جس طرح کی ایک کلی غسل کیلئے فرض ہے اِسی طرح کی تین کلیاں وضو کیلئے سنت ہیں۔
۲.ناک میں پانی چڑھانا
جلدی جلدی ناک کی نوک پر پانی لگا لینے سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت ہڈی کے شروع تک دُھلنا لازِمی ہے۔ اور یہ یوں ہو سکے گا کہ پانی کو سونگھ کر اوپر کھینچئے۔ یہ خیال رکھئے کہ بال برابربھی جگہ دُھلنے سے نہ رہ جائے ورنہ غسل نہ ہو گا۔ ناک کے اندر اگر رِینٹھ سوکھ گئی ہے تو اس کا چھڑانا فرض ہے۔ نیز ناک کے بالوں کا دھونا بھی فرض ہے۔ (4)
۳. تمام ظاہری بدن پر پانی بہانا
سَر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے تلووں تک جسم کے ہر پرزے اور ہر ہر رونگٹے پر پانی بہ جانا ضروری ہے۔ جسم کی بعض جگہیں ایسی ہیں کہ اگر احتیاط نہ کی تو وہ سوکھی رہ جائیں گی اور غسل نہ ہو گا۔ لہٰذا غسل میں خاص احتیاط سے کام لیں۔ (5)