تابوت سکینہ کیا تھا؟

تابوت سکینہ کیا تھا؟ ایک ایسا صندوق جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے

یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آپ کی آخرِ زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔ پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں توراۃ شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے۔

تابوت سکینہ کی برکات

یہ بڑا ہی مقدس اور بابرکت صندوق تھا۔ بنی اسرائیل جب کفار سے جہاد کرتے تھے اور کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہوجاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے تھے۔

اورجس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے

نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ
کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہوجایا کرتی تھی۔بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا۔ تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔

قوم عمالقہ کا حملہ

الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوت سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرتِ خداوندی کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ تھا مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوگئے اور ان لوگوں میں معاصی و طغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہوگیا کہ قوم عمالقہ کے کفار نے ایک لشکر جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کردیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کرڈالا۔ عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کرڈالا، اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔

 

 

تابوت سکینہ کی بے ادبی

اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں کے ہجوم میں جھنجھوڑ دیئے گئے۔ چنانچہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ صندوق رحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شمویل علیہ السلام کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی۔ اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شمویل علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی کہ مقدس صندوق آجائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کرلیں گے۔ چنانچہ صندوق آگیا اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر رضامند ہو گئے۔(1)

تابوت سکینہ میں کیا تھا؟

اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے ،کچھ من و سلویٰ، اس کے علاوہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے وغیرہ سب سامان تھے۔(2)

قرآن مجید میں خداوند قدوس نے سورہ بقرہ میں اس مقدس صندوق کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔

وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَاٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿248﴾

ترجمہ کنزالایمان:۔ اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی، اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو۔(3)

درسِ ہدایت

بنی اسرائیل کے صندوق کے اس واقعہ سے اس سبق پر روشنی پڑتی ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے:۔

  • اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قوم سرکشی اور عصیان کے طوفان میں پڑ کر اللہ و رسول (عزوجل و ﷺ) کی نافرمان ہوجاتی ہے اس قوم کی نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے پڑھ لیا کہ جب بنی اسرائیل سرکش ہو کر خدا کے نافرمان ہو گئے اور قسم قسم کی بدکاریوں میں پڑ کر گناہوں کا بھوت ان کے سروں پر عفریت بن کر سوار ہو گیا تو ان کے جرموں کی نحوستوں نے انہیں یہ برا دن دکھایا کہ تابوت سکینہ ان کے پاس سے قوم عمالقہ کے کفار اٹھا لے گئے اور بنی اسرائیل کئی برسوں تک اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہو گئے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
4/5 - (4 votes)

حوالہ جات

حوالہ جات
1تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۹۔تفسیر روح البیان،ج۱، ص۳۸۵۔پ۲، البقرۃ۲۴۷
2تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۸۶،پ۲،البقرۃ: ۲۴۸
3پ2،البقرۃ:248
سو برس تک مردہ رہے پھر زندہ ہو گئے

سو برس تک مردہ رہے پھر زندہ ہو گئے

ذبح ہو کر زندہ ہوجانے والے پر ندے

ذبح ہو کر پھر زندہ ہوجانے والے پر ندے (قرآنی واقعہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

شب معراج کی فضیلت اور نوافل

معجزات سیرت انبیاء علیہم السلام کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقانیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون الٰہی ہے اس نے جب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم...

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)