ساتویں دن عقیقہ کرنا بہتر ہے، لیکن اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو زندگی کے کسی بھی وقت عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے سنت ادا ہو جائے گی۔ البتہ ساتویں دن کا لحاظ رکھنا افضل ہے۔
بعض علما نے کہا ہے کہ اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو تو چودہویں یا اکیسویں دن کیا جائے، یعنی سات دن کے وقفے کا لحاظ رکھا جائے۔
عقیقے کا ساتواں دن شمار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا، اُس دن سے ایک دن قبل کو ساتواں دن مانا جاتا ہے۔ مثلاً:
- اگر بچہ جمعہ کو پیدا ہوا ہو تو جمعرات کو ساتواں دن ہوگا۔
- اگر بچہ ہفتے کو پیدا ہوا ہو تو جمعہ کو ساتواں دن ہوگا۔
کیا فوت شدہ بچے کا عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟
اگر بچہ فوت ہو جائے تو اس کا عقیقہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ عقیقہ شکرانے کی ایک صورت ہے اور شکرانہ صرف زندہ بچے کے لیے ہوتا ہے۔
کیا بچے کی موجودگی ضروری ہے؟
عقیقہ کرتے وقت بچے کا موجود ہونا ضروری نہیں۔ اگر بچہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہو تب بھی اس کی طرف سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر والدین نے اپنا عقیقہ نہیں کیا تو کیا بچوں کا کر سکتے ہیں؟
بعض افراد کہتے ہیں کہ جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو، وہ اپنے بچوں کا عقیقہ نہ کرے۔ یہ بات درست نہیں۔ شریعت میں اس کی کوئی ممانعت نہیں۔
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو وہ بھی اپنے بچوں کا عقیقہ کر سکتا ہے کیونکہ اولاد والدین کے لیے نعمت ہوتی ہے، اور عقیقہ اس نعمت پر شکرانے کا عمل ہے۔
بڑے ہو جانے کے بعد عقیقہ کرنا
اگر کوئی بالغ ہو چکا ہو اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو وہ چاہے تو خود بھی اپنا عقیقہ کر سکتا ہے۔ شریعت میں اس کی اجازت ہے اور یہ مستحب عمل ہے۔
عقیقہ نہ کرنے کا نقصان
اگر بچہ سات دن کا ہو چکا ہو اور والد استطاعت رکھنے کے باوجود عقیقہ نہ کرے، اور اگر وہ بچہ فوت ہو جائے تو والدین اس کی شفاعت سے محروم ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا، جن افراد کا بچپن میں عقیقہ نہیں ہوا، وہ بھی اپنا عقیقہ بعد میں کر سکتے ہیں اور اپنے بچوں کا بھی ضرور کریں۔