حضرت سہل بن عبداللہ تستری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ایک موقع پر فرمایا کہ بصرہ کا فلاں نانبائی(1)ولی اللہ ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید شوق دیدار میں بصرہ پہنچا اور ڈھونڈتا ہوا اس نانبائی کی خدمت میں حاضر ہوگیا، وہ اس وقت روٹیاں پکا رہے تھے(2)داڑھی کے بالوں کی جلنے سے حفاظت کی خاطر منہ کے نچلے حصے پر نقاب پہن رکھا تھا۔
اس مرید نے دل میں کہا، اگر یہ ولی ہوتا تو نقاب نہ بھی پہنتا تو اس کے بال نہ جلتے ۔ اس کے بعد اس نے نانبائی کو سلام کیا اور گفتگو کرنا چاہی تو اس روشن ضمیر نانبائی نے سلام کا جواب دے کر فرمایا، ” تو نے مجھے حقیر تصور کیا اس لئے میری باتوں سے نفع نہیں اٹھا سکتا۔” یہ کہنے کے بعد انہوں نے گفتگو کرنے سے انکار فرما دیا۔(3)
گدڑی کا لعل
عزیز ساتھیو! معلوم ہوا کے ولی ہونے کیلئے تشہیر و اشتہار ، نمایاں جبّہ و دستار اور عقید تمندوں کی لمبی قطار ہونا ضروری نہیں، اللہ پاک جسے چاہے نواز دے ۔اللہ پاک نے اپنے اولیاء رحمہم اللہ کو بندوں کے اندر پوشیدہ رکھا ہے لہٰذا ہمیں ہر نیک بندے کا احترام کرنا چاہئے، ہمیں کیا معلوم کہ کون گدڑی کا لعل(4)ہے! ایک بار میں سفر پر تھا، ہمارے ڈبے میں ایک دبلا پتلابے ریش و بے کشش لڑکا انتہائی سادہ لباس میں ملبوس سب سے جدا کھویا کھویا سا بیٹھا تھا۔کسی اسٹیشن پر ٹرین رکی، صرف دو منٹ کا وقفہ تھا، وہ لڑکا پلیٹ فارم پر اتر کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔
ہم سب نے نمازِ عصر کی جماعت قائم کر لی، ابھی بمشکل ایک رکْعت ہوئی تھی کہ سیٹی بج گئی لوگوں نے شور مچایا کہ گاڑی جا رہی ہے۔ سب نماز توڑ کر ٹرین کی طرف لپکے تو وہ لڑکا کھڑا ہو گیا اور اس نے مجھے اشارہ سے ڈانٹتے ہوئے نماز قائم کرنے کا حکم صادر کیا! ہم نے پھر جماعت قائم کر لی، حیرت انگیز طور پر ٹرین ٹھہری رہی، نماز سے فارغ ہو کر ہم جوں ہی سوار ہوئے ، ٹرین چل پڑی اور وہ لڑکا اسی بینچ پر بیٹھا لا پرواہی سے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کوئی “مجذوب” ہو گا جس نے ہمیں نماز پڑھانے کیلئے اپنی روحانی طاقت سے ٹرین کو روک رکھا تھا!
تین چیزیں تین چیزوں میں پوشیدہ ہیں
اللہ نے تین چیزوں کو تین چیزوں میں پوشیدہ رکھا ہے
- اپنی رِضا کو اپنی اطاعت میں اور
- اپنی ناراضگی کو نافرمانی میں اور
- اپنے اولیا کو اپنے بندوں میں پوشیدہ رکھا ہے۔
لہٰذا ہر اطاعت اور ہر نیکی کو عمل میں لانا چاہئے کہ معلوم نہیں کس نیکی پر وہ راضی ہو جائے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بدی سے بچنا چاہئے ، کیونکہ پتا نہیں کہ وہ کس بدی پر ناراض ہو جائے مثلاً کسی کی لکڑی کا خلال کرنا ایک معمولی سی بات ہے یا کسی ہمسایہ کی مٹی سے اس کی اجازت کے بغیر ہاتھ دھونا گویا ایک چھوٹی سی بات ہے مگر چونکہ ہمیں معلوم نہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ اس برائی میں حق کی ناراضگی مخفی ہو تو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بچنا چاہئے۔(5)