قومِ عاد کی تاریخ میں ایک عظیم بادشاہ “شداد” کا ذکر آتا ہے، جس کا نسب عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام سے ملتا ہے۔ شداد نے اپنی بادشاہت کے دوران نہ صرف اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا، بلکہ تمام بادشاہوں کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کر لیا۔
شداد کی جنت
اس نے پیغمبروں کی زبان سے جنت کا ذکر سن کر دنیا میں جنت بنانے کی خواہش کی، اور اس ارادے سے ایک شاندار شہر تعمیر کیا۔ اس شہر کے محلات سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنائے گئے، اور ان کی عمارتوں میں زبرجد اور یاقوت کے ستون نصب کیے گئے۔ ہر محل کے اردگرد جواہرات سے بھرپور نہریں بہائی گئیں، اور سائے کے لیے مختلف درخت لگائے گئے۔ اس طرح اس سرکش بادشاہ نے جنت کی تمام چیزوں اور عیش و عشرت کے سامان کو اس شہر میں جمع کر لیا۔
شداد کا انجام
جب یہ شہر مکمل ہوا تو شداد اپنے درباریوں کے ساتھ اس کی سیر کے لیے روانہ ہوا۔ لیکن جب وہ شہر کے قریب پہنچا، تو آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی، جس نے شداد اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔ وہ اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ بھی نہ سکا۔
عبرت کی داستان
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت عبداللہ بن قلابہ اپنے گمشدہ اونٹ کی تلاش میں صحرائے عدن سے گزرتے ہوئے اس شہر تک پہنچے۔ انہوں نے شہر کی تمام زینتیں اور آرائشیں دیکھیں، لیکن وہاں کوئی زندہ انسان نہیں ملا۔ وہ کچھ جواہرات لے کر واپس آئے۔ جب یہ خبر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملی، تو انہوں نے عبداللہ بن قلابہ کو بلا کر تمام واقعہ سنا۔
اس پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا دنیا میں کوئی ایسا شہر موجود ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ شہر شداد بن عاد نے بنایا تھا، جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ مگر یہ سب اللہ کے عذاب سے ہلاک ہوئے، اور ان کی قوم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔
مگر آپ کے زمانے میں ایک مسلمان جس کی آنکھیں نیلی، قد چھوٹا اور اس کے ابرو پر ایک تل ہو گا، اپنے اونٹ کی تلاش میں اس ویران شہر میں داخل ہو گا۔ اتنے میں عبداللہ بن قلابہ آگئے، تو کعب احبار نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ بخدا وہ شخص جو شداد کی جنت کو دیکھے گا، وہ یہی شخص ہے۔(1)
ترجمہ:۔کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیسا کیا۔ وہ ارم حد سے زیادہ طول والے۔ کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا، اور ثمود جنہوں نے وادی میں پتھر کی چٹانیں کاٹیں، اور فرعون کہ چومیخا کرتا (2)۔ جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی۔ پھر ان میں بہت فساد پھیلایا ۔تو ان پر تمہارے رب نے عذاب کا کوڑا بقوت مارا۔ (3)
سرکشی کی سزا
اللہ پاک کو بندوں کی سرکشی، تکبر اور غرور سخت ناپسند ہے۔ خداوند قدوس کا دستور ہے کہ ہر سرکش قوم جو زمین پر فساد اور ظلم و عدوان پھیلائے، اس قوم کو عذابِ الٰہی کے ذریعے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ شداد اور قومِ عاد کے افراد اپنی سرکشی اور تکبر کی وجہ سے اللہ کے غضب کا شکار ہوئے۔
قرآن کی تعلیمات سے رہنمائی
ان قوموں کے عروج و زوال اور عذابِ الٰہی کی داستانوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ قرآن کریم میں ان اقوام کے انجام کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اہلِ قرآن ان کی کہانیاں سن کر نصیحت حاصل کریں اور اللہ سے خوفزدہ رہیں۔
مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کریں اور اس کا ترجمہ بھی پڑھیں تاکہ ان اقوام کی ہلاکت سے سبق لیں۔ انہیں ہمیشہ توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہیے اور بداعمالیوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اعمالِ صالحہ میں مشغول رہیں اور مال و دولت کے غرور سے دور رہیں۔ ہمیشہ دل میں خوفِ خدا رکھیں اور تواضع و انکساری کو اپنی عادت بنائیں۔ جہاں تک ممکن ہو، اپنی زندگی میں اچھے اعمال کرتے رہیں۔ واللہُ هو الموفق۔