آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت منہ چڑاتی نظرآئے گی کہ ہمارے معاشرےمیں ایک تعداد ہے جو والدین بالخصوص ماں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کرتی ہے۔ آج ایک تعداد ہے کہ ماں پر شیرِِ کی طرح دھاڑتی نظر آتی ہے ماں کے سامنے غُرّاتی نظر آتی ہے، بعض نادان تو مَعَاذَاللہ ماں کو گالیاں دیتے ہیں، اور کچھ بدقسمت تو مارتے پیٹتے بھی ہیں،جیسا کہ آئے روز اخبارات وغیرہ میں خبریں لگتی ہیں۔
ماں قدرت کا انمول تحفہ
حالانکہ”ماں“تو قدرت کا انمول تحفہ (Gift)ہے۔ ”ماں“ کا مقام قرآن و حدیث میں بَیان ہوا ہے، ”ماں“ کا فرمانبردار اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول، رَسُولِ مَقبُول ﷺ کی رِضاپانے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اگر زندگی بھر بھی ماں کی خدمت کی جائے تب بھی ماں کے احسانات کا بدلہ نہیں چکایا جا سکتا۔ کیونکہ
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو اپنے خُونِ جِگر سے اولاد کو پالتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کے آرام کی خاطر اپنا چین سُکون قربان کرتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جوخود تو گرمی برداشت کرتی ہے مگر اولاد کو اس تکلیف سے بچانے کی کوشش کرتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جواولاد کی خاطر سردیوں کی ٹھنڈی اور لمبی راتیں جاگ کر گزار دیتی ہے،
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو اپنی خواہشات قربان کر کے اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو اپنے منہ کا نوالہ بھی اولاد کے منہ میں دے کر خوش ہوتی ہے اور خود بھوکی سو جاتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جواولاد کو گرم و نرم بستر پر لٹا کر خود ٹھنڈے فرش پر لیٹ جاتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جوشوہر کی وفات کے بعد بھی اولاد کو دربدر بھٹکنے نہیں دیتی۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو قرض کی چکی میں پِس کر بھی اولاد کی فرمائشوں کو پورا کرتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کی تھوڑی سی تکلیف پر بھی تڑپ جاتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جوبرتن دھو کر لوگوں کے گھروں کی صفائیاں کرکے اپنی اولاد کا پیٹ پالتی نظر آتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو گھر گھر کے چکر لگا کر اپنی اولاد کا سُکھ تلاش کرتی نظر آتی ہے۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو معذور اور لاچار اولاد تک کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑتی۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جو نافرمان اور بدکار اولاد کو بھی اپنے سایَۂ شفقت اور ممتا کی ٹھنڈک سے محروم نہیں کرتی۔
- ٭ماں ہی وہ ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ اَلْغَرَض!ماں ایک ایسی ہستی ہے جو ہو تو آنگن میں بہار آجاتی ہےاور جو نہ ہو تو تمام تر رونق کے باوجود گھر ویران لگتا ہے۔
لہٰذا ماں کی خدمت کیجئے، ماں کو راضی کیجئے، ماں کو کبھی تکلیف مت پہنچائیے، ماں کو کبھی دکھی مت کیجئے، ماں سے کبھی جھگڑا مت کیجئے، ماں سے کبھی اُونچی آواز میں بات مت کیجئے۔ ماں کی قدر کیجئے۔ اور اگر ماں یا باپ یا ان میں سے ایک بھی ناراض ہے تو فوراً انہیں راضی کیجئے۔
یاد رکھئے! ماں جیسی بھی ہو، ماں ماں ہوتی ہے۔ ماں کے حقوق سے آزاد ہوجانا ممکن ہی نہیں ہے۔
ماں کو کندھوں پر اُٹھا ئے گرم پتّھر وں پر چھ میل…….
ایک صحابی رضی اللّٰہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتّھر تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا اُن پرڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا!میں اپنی ماں کو گَردن پر سُوار کرکے چھ (6) مِیل(1) تک لے گیاہوں،کیا میں ماں کے حُقُوق سے فارِغ ہوگیاہوں؟سرکارِ نامدار، مکی مدنی سرکارﷺ نے فرمایا : تیرے پیدا ہونے میں دَردکے جس قَدَر جھٹکے اُس نے اُٹھائے ہیں ،شاید یہ اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔(2)
پىارے بھائیو!اس روایت سے ہمیں یہ درس مل رہا ہے کہ والدین بالخصوص ما ں کے ساتھ احسان وبھلائی والا سلوک کیا جائے اور ہمیشہ ان کی اطاعت بھی کی جائے۔ لیکن یاد رہے کہ گناہ کے کاموں میں والدین کی بھی اطاعت نہیں کی جائے گی، مثلاً اگر وہ نماز پڑھنے سے منع کریں، داڑھی مُنڈوانے کا کہیں وغیرہ تو ان باتوں میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ حدیثِ پاک میں ہے: لَاطَاعَۃَ لِاَحَدٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ یعنی اللہ پاک کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں، فرمانبرداری صرف نیک امور میں ہے۔(3)
گناہ کے علاوہ ہر کام میں ان کی اطاعت کی جائے گی۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے عَرْض کی،یارَسُوْلَ اللہ ﷺ! والِدَین کااپنی اَولادپر کیا حق ہے؟ فرمایا:هُمَاجَنَّتُكَ وَنَارُكَیعنی و ہی تیری جنّت اور تیری دوزخ ہیں۔(4)
پىارے اور محترم ساتھیو!اگرہم بھی اپنے ماں باپ کو راضی رکھنا چاہتے ہیں اور یقیناًسبھی چاہتے ہوں گے توآئیے!ہم ایسی اچھی صُحبت اِختیارکریں،جہاں ماں باپ کا ادب واِحترام سکھایا جاتا ہو،جہاں ماں باپ کی تعظیم و توقیرکرنا سکھایاجاتاہو،جہاں ماں باپ کے سامنے اُف کرنے سے بھی بچنےکی ترغیب دی جاتی ہو۔
اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
دعا زہرا
قارئین کرام اس میں کوئی شک اسلام نے ہر عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا حق دیا ہے ۔ بیٹی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے کوئی بھی ماں باپ اپنی اولاد کے کے لیے برُا نہیں سوچتا ہر ماں باپ کی خوائیش ہوتی ہے کہ اُس کی اولاد ایک بہتر مستقبل کے ساتھ زندگی گزارے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ مگر ہم نے اسلام کی طرف سے دی جانے والی آزادی کو کسی اور طرف لے کر جارہے ہیں ۔ میرا اشارہ حال ہی میں ہونے والے واقعہ دُعا ذہرا کیس کی طرف ہے جس کی عمر ابھی صرف چودہ سال ہوئی ہے اور اسکا کا والد اُسکی عمر کے تمام کوائف بھی پیش کر چکا ہے ۔ اب ایک چودہ سال کی بچی بھلا اپنے مستقبل کا کیا فیصلہ کر سکتی ہے ۔ اس کیا پتا اُس کے لیے کیا اچھا ہے کیا برُا ہے ۔ ہمارے معاشرے کے کچھ لبرل لوگ دعا زہرا کے اس اقدام کو سرا رہے ہیں کہ اُس نے نکاح کیا ہے ۔ یہ بات ضرور ہے اُس نے نکاح کیا ہے جو کہ اسلام میں جائز ہے ۔ مگر حقائق کو بھی پس پردہ نہ ڈلا جائے حقائق یہ ہیں دعا زہرا ابھی چودہ سال کی ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کا اولاد پر اختیار ہے کہ وہ اپنی اولاد کی زندگی کا فیصلہ کریں
اُن والدین پر کیا گزرہی ہوگی جھنوں نے اس کو پالا پوسا اور اج اُنھیں یہ دن دیکھنا پڑا ۔ہمیں اس معاملے کو حقائق کی روشنی میں دیکھنا چائیے ۔ اگر دعا زہرا کی عمر واقعی چودہ سال ہے تو اُسے اس کے والدین کے حوالے کیا جائے ۔ عدالت کو چائیے کہ وہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کرے۔