مسلمانوں کے لئے ایک ایسا امام ضروری ہے جو ان میں شرع کے احکام جاری کرے، حدیں قائم کرے، لشکر ترتیب دے، صدقات وصول کرے، چوروں ، لٹیروں، حملہ آوروں کو مغلوب (قابو) کرے، جمعہ و عیدین قائم کرے، مسلمانوں کے جھگڑے کاٹے، حقوق پر جو گواہیاں قائم ہوں وہ قبول کرے، ان بیکس یتیموں کے نکاح کرے جن کے ولی نہ رہے ہوں اور ان کے سواوہ کام انجام دے جن کو ہر ایک آدمی انجام نہیں دے سکتا۔
امام کیلئے ضروری ہے کہ وہ ظاہر ہو چھپا ہو انہ ہو۔ ورنہ وہ کام انجام نہ دے سکے گا جن کیلئے امام کی ضرورت ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ امام قریشی ہو، قریشی کے سوا اور کی امامت جائز نہیں۔ امام کیلئے ضروری ہے کہ مسلمان، مرد، آزاد ہو، عاقل، بالغ اور اپنی رائے، تدبیر اور شوکت و قوت سے مسلمانوں کے امور میں تصرف ( دخل) کر سکتا ہو یعنی صاحب سیاست ہو اور اپنے علم، عدل اور شجاعت و بہادری سے احکام نافذ کرنے اور دار الاسلام کے حدود (سرحدوں) کی حفاظت اور ظالم و مظلوم کے انصاف پر قادر ہو۔
حضور ﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم
حضور نبی کریم ﷺ کے تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم متقی و پرہیز گار ہیں ان کا ذکر ادب، محبت اور توقیر کے ساتھ لازم ہے ان میں سے کسی کے ساتھ بد عقیدگی یا کسی کی شان میں بد گوئی کرنا انتہائی درجہ کی بدنصیبی اور گمراہی ہے۔ وہ فرقہ نہایت بد بخت اور بد دین ہے جو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر لعن طعن کو اپنا مذہب بنائے ان کی عداوت(دشمنی) کو ثواب کا ذریعہ سمجھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بڑی شان ہے ان کی ایذا (تکلیف) سے حضور ﷺ کو ایذا ہوتی ہے۔ کوئی ولی، کوئی غوث، کوئی قطب مرتبہ میں کسی صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنتی ہیں ۔روز محشر فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔